"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات کی جانب پیش رفت

سینیٹ میں الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کا بل منظور کر لیا گیا ہے جس کے تحت جہاں آئین میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا وہاں نااہلی کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوگی جبکہ الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 (1) میں جو ترمیم کی گئی ہے اس کے مطابق الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخوں کا اعلان سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے کرے گا۔ الیکشن کمیشن انتخابات کے نوٹیفکیشن میں اعلان کردہ پروگرام میں تبدیلیاں بھی کر سکتا ہے یا ایک نیا انتخابی پروگرام بھی جاری کر سکتا ہے۔ انتخابی قوانین میں ترامیم سے الیکشن کمیشن بظاہر بااختیار اور مداخلت سے آزاد ہو گیا ہے‘ اور ان ترامیم سے الیکشن ایکٹ کی دفعات میں جو ابہام پایا جاتا تھا اس کا بھی ازالہ ہو گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل (2)58 کے تحت جب صدر مملکت اسمبلی کی مدت کے اختتام پر قومی اسمبلی تحلیل کریں گے تو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کا آئینی اختیار بھی رکھتے ہیں جس کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57 میں الیکشن کمیشن سے مشاورت سے مشروط کیا گیا۔ ماضی میں دو صدور‘ غلام اسحاق خان اور سردار فاروق لغاری نے جب اسمبلیاں تحلیل کیں تو اپنی نشری تقریر میں الیکشن کی تاریخ کا بھی تعین کر دیا تھا‘ اس کے برعکس جب صدر ضیا الحق نے 29 مئی 1988ء کو محمد خان جونیجو کی حکومت اور قومی اسمبلی تحلیل کی تھی تو انہوں نے الیکشن کی تاریخ کا تعین نہیں کیا تھا‘ جبکہ17 اگست 1988ء کو صدر ضیا الحق کے سانحہ کے بعد قائم مقام صدر مملکت غلام اسحاق خان نے 24 اکتوبر 1988ء کی تاریخ مقرر کی تھی۔ ماضی کی روایت یہی تھی کہ عام انتخابات کی تاریخ کا تعین صدر مملکت ہی صدارتی اعلامیہ یا قوم سے خطاب کے دوران کیا کرتے تھے اور الیکشن کمیشن صدر کی جانب سے تاریخ کا تعین ہو نے کے بعد الیکشن شیڈول جاری کرتا رہا ہے‘ اسی طرح عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی دفعہ 11 کے تحت صدر مملکت ہی الیکشن کی تاریخ دینے کے قانونی طور پر مجاز تھے‘ بعد ازاں اس شق کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 میں شامل کر دیا گیا اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی دفعہ 11(اے) کے تحت الیکشن کمیشن کو مکمل آئینی و قانونی اختیارات تفویض کیے گئے تھے کہ ناگزیر حالات میں الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کا مجاز ہو گا۔ بعد ازاں الیکشن ایکٹ 2017ء میں اس شق کو دفعہ 58 میں شامل کر کے الیکشن کمیشن کو وہی اختیارات دیے گئے جو ماضی میں عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی دفعہ 11 (اے) میں شامل تھے‘ لیکن یہاں پر الیکشن کمیشن کو پابند کیا گیا کہ الیکشن کے شیڈول میں تبدیلی کرتے ہوئے صدر مملکت کو مطلع کرنا لازمی ہو گا‘ لیکن ان کی منظوری کی ٰضرورت نہیں تھی۔ الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو الیکشن کے شیڈول میں تبدیلی کی صرف اطلاع دینا ہوتی تھی۔
بظاہرسینیٹ کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57 اور 58 میں ترامیم اس لیے کرنا پڑیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے چاراپریل کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کے 22مارچ کے فیصلے یا اعلامیہ کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس میں الیکشن کمیشن نے30 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ کرانے میں تبدیلی کرتے ہوئے 8 اکتوبر2023 ء کو الیکشن کرانے کا ترمیمی شیڈول جاری کیا تھا۔ غیر جانبدارانہ طور پر جائزہ لیا جائے تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ کو الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب کے الیکشن کرانے کا حکم نہیں جاری کرنا چاہیے تھا کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30اپریل کو پنجاب اسمبلی کے انتخاب کو 8 اکتوبر تک مؤخر کرتے ہوئے زمینی حقائق اور حساس اداروں کی جامع رپورٹ اور وزارت خزانہ کی جانب سے 21 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ دینے سے معذوری کا بیان سپریم کورٹ میں پیش کیا تھامگر عدالت عظمیٰ نے جب الیکشن کمیشن کے شیڈول کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 14مئی کو انتخابات کا حکم دیا تو حکومت نے معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوا دیا اور پارلیمنٹ نے وزارت خزانہ کو فنڈز جاری کرنے سے روک دیا۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ بہرحال الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے چاراپریل کے فیصلے پر نظرثانی اپیل کی پٹیشن داخل کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 187‘ 199 اور 175 کا سہارا لیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر سماعت شروع کر دی ہے اور توقع ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو بااختیار اور خودمختار بنانے کے لیے اہم فیصلہ کرے‘ لیکن اس سارے معاملے کے گرد دھند نے آٹھ اکتوبر کے الیکشن کو بھی شبہات میں ڈال رکھا ہے اور ممکن ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر فیصلہ کرتے ہوئے آٹھ اکتوبر کو الیکشن کروانے کا ہی حکم جاری کر دے‘ ویسے بھی آئینی طور پر قومی اسمبلی 12 اگست اور سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں 15 اگست کو تحلیل ہو رہی ہیں اور 60 روز میں انتخابات غالباً 10 اکتوبر کو ہو سکتے ہیں اور اگر 12 اگست سے چند روز قبل قومی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو الیکشن 10نومبر کو متوقع ہو ں گے۔
الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے لیے ملک بھر سے ریٹرننگ آفیسرز کی تقرری کے لیے ابتدائی تیاری شروع کر دی ہے اور چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز کا اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔چونکہ ریٹرننگ آفیسرز کو سول بیورو کریسی سے ہی لیا جائے گا تو احتیاط کرتے ہوئے ان بیورو کریٹس کو انتخابی عمل سے دور رکھا جائے جو ماضی میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے متنازع ہو گئے تھے۔ اسی طرح پنجاب میں 17 جولائی 2022ء کو غالباً 25 صوبائی حلقوں میں جو ضمنی انتخابات ہوئے تھے تو ان حلقوں کے ریٹرننگ آفیسرز کی کارکردگی کا بھی جائزہ لینا ہو گا کیونکہ اس وقت اگرچہ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ تھے لیکن ان کی گرفت بیورو کریسی پر برائے نام تھی اور عمران خان نے پنجاب کی بیورو کریسی کو دباؤ میں رکھا ہوا تھا۔ یہاں پرالیکشن کمیشن نے غیر جانبدارانہ الیکشن کرائے لیکن عمران خان نے الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ چیف الیکشن کمشنر نے تحریک انصاف کے چند اہم رہنماؤں کو پنجاب کے چیف سیکرٹری کے تعاون سے صوبہ بدر کر دیا تھا جن میں علی امین گنڈاپور بھی شامل تھے۔ چیف الیکشن کمشنر نے قومی اسمبلی کی 272 اور صوبائی اسمبلیوں کی 577 نشستوں کے لیے ریٹرننگ آفیسرز کا تقرر کرنا ہے اور یہ عام روایت رہی ہے کہ ریٹرننگ آفیسرز کے تقرر کے بعد وہ عموماً الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیارات سے باہر ہو جاتے ہیں اور الیکشن کے معاملات میں الیکشن کمیشن کے احکامات کی بجا آوری کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ چار اپریل2013ء کو الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر پریس ریلیز جاری کی تھی کہ ریٹرننگ آفیسرز الیکشن کرانے میں خودمختار ہیں‘ بعد ازاں دباؤ کے تحت یہ پریس ریلیز ویب سائٹ سے حذف کر دی گئی تھی‘ لہٰذا الیکشن کمیشن کو ریٹرننگ آفیسرز کے تقرر میں احتیاط کرنا ہوگی۔ چونکہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر اور پنجاب کے ممبر الیکشن کمیشن کا تعلق بیورو کریسی سے رہا ہے لہٰذا وہ پنجاب کی بیورو کریسی کے طریقہ کار کو اچھی طرح جانتے ہیں اور دیگر دو ارکان کا تعلق وکلا برادری سے ہے اور ان کا اس فیلڈ میں وسیع تجربہ ہے اور ایک ممبر کا تعلق عدلیہ سے ہے وہ بھی بیورو کریسی کے طرزِ عمل سے بخوبی واقف ہیں۔الیکشن کمیشن نے آئندہ انتخابات کی تیاری میں اہم قدم اٹھاتے ہوئے عام انتخابات میں اپنا حق رائے دہی یقینی بنانے کے لیے 13 جولائی تک ووٹ کا اندراج‘ اخراج اور درستگی کی آخری تاریخ مقرر کر دی ہے اور 13جولائی کے بعد انتخابی فہرستوں میں رد و بدل نہیں ہوگا۔ ووٹرز آئندہ انتخابات میں اپنا ووٹ یقینی بنانے کیلئے 13جولائی تک انتخابی فہرستوں کا جائزہ لیں اور سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ ٹاسک فورس بنا کر انتخابی فہرستوں میں ووٹرز کے اندراج کو چیک کروا لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں