"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ مراعات بل اور عام انتخابات

ملکی معیشت کی روز بروز بگڑتی صورتحال اور اس کی کمر پر لدے قرضوں کے بھاری بوجھ سے کون لا علم ہو گا۔ آج کل ہر طرف انہی ناقص معاشی حالات کا واویلا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی معاشی ماہرین ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بھی ظاہر کر چکے ہیں۔ صنعتی اور برآمدی شعبہ زوال پذیر ہونے کی وجہ سے زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ترین ہیں۔ بیروز گاری روز افزوں ہے۔ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد دس کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ملک کے غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں لیکن کسمپرسی کے ان حالات کے باوجود ہماری اشرافیہ کو اپنی مراعات کی پڑی ہے۔ گزشتہ ہفتے ایوانِ بالا میں سینیٹ کے سابق اور موجودہ چیئرمینوں‘ ڈپٹی چیئرمینوں اور اراکین کی مراعات میں اضافے کے تین بل منظور کیے گئے۔ اب ان بلوں میں موجود اضافی مراعات کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ جسے 40 سے زائد سینیٹرز بشمول سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک اور رضا ربانی نے پیش کیا تھا۔ دیگر مراعات کے علاوہ مجوزہ قانون کے مطابق سابق چیئرمین سینیٹ کو 12 ملازمین کا عملہ ملے گا‘ رہائش گاہ پر سکیورٹی کے 6 اہلکار تعینات ہوں گے جبکہ سفر کے دوران سکواڈ میں پولیس‘ رینجرز‘ فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے 4 اہلکار شامل ہوں گے جبکہ حکومت کی جانب سے ان کے گھریلو عملے کیساتھ ساتھ خاندان کے افراد کے سپانسر شدہ سفری انتظامات بھی کیے جائیں گے جبکہ نئے بل کے مطابق چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے دفاتر کے ماہانہ اخراجات 6 ہزار روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سینیٹ کے چیئرمین‘ جو اپنی رہائش گاہ میں ہی رہائش اختیار کرتے تھے‘ وہ ایک لاکھ روپے ماہانہ ہاؤس رینٹ کے حقدار تھے‘ جسے اب بڑھا کر ڈھائی لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح چیئرمین سینیٹ کے لیے یومیہ الاؤنس ایک ہزار 750 روپے سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سفری الاؤنس‘ جو کہ صرف 75 روپے تھا‘ کو بڑھا کر 5 ہزار روپے کر دیا گیا‘ مزید برآں اب اندرون ملک سفر کے لیے تمام ایئر لائنز کے ٹکٹ خریدے جا سکتے ہیں جبکہ ماضی میں صرف پی آئی اے کے ٹکٹوں کی اجازت تھی۔ساتھ ہی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے صوابدیدی فنڈ کو بالترتیب 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ اور 3 لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کی سرکاری رہائش گاہ کے فرنیچر کیلئے ایک بار کے اخراجات ایک لاکھ سے بڑھا کر پچاس لاکھ روپے کر دیے گئے ہیں جبکہ بیرونِ ملک سفر پر چیئرمین سینیٹ کو ڈپٹی ہیڈ آف سٹیٹ یا نائب صدر کا پروٹوکول بھی ملے گا اور ہوائی سفر کی صورت میں حکومت‘ ایئر فورس‘ فلائنگ کلب یا چارٹرڈ سروس کا جہاز یا ہیلی کاپٹر ریکوزیشن کیا جا سکے گا۔ چیئرمین سینیٹ بیرونِ ملک سفر پر کمرشل فلائٹ پر اپنے گھر کا ایک فرد اور ریکوزیشنڈ جہاز پر چار افراد کو ساتھ لے جا سکیں گے۔اس بل میں ایک ترمیم یہ بھی کر لینی چاہیے کہ اگر چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کرپشن یا کسی اور کیس میں گرفتار ہوں تو انہیں فائیو سٹار ہوٹل کی سہولتیں دی جائیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس سے مجوزہ بل کی منظوری میں سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھی پیش پیش تھے جو اس سسٹم کے ناقد سمجھے جاتے ہیں۔ مجوزہ بلوں پر شدید ردِعمل کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1975ء کے قانون میں موجودہ حالات کے مطابق ردوبدل کیا گیا ہے۔ یہ سہولتیں پہلے ہی سے دی جا رہی ہیں۔ سینیٹ کی فنانس کمیٹی پہلے سے ہی ان اخراجات کو ایڈجسٹ کرتی ہے‘ اس بل کا مقصد چیزوں کو ترتیب دینا اور آڈٹ کے مسائل کو حل کرنا ہے‘ انہوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ مجوزہ قانون سے قومی خزانے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔ چیئرمین سینیٹ نے اپنے اس وضاحتی بیان سے سینیٹ بل کے منفی اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ویسے ریکارڈ کی درستی کیلئے ضروری ہے کہ تاریخی حقائق بھی سامنے لائے جائیں۔ اگر سینیٹ ایکٹ 1975ء کو مدِنظر رکھا جائے تو اُس وقت محترم حبیب اللہ خان چیئرمین سینیٹ تھے۔ وہ صدر ایوب خان کی کابینہ میں مرکزی وزیر داخلہ رہ چکے تھے اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پاکستان کی پہلی سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرا دیا۔ اس وقت سینیٹ کے ارکان کی تعداد 42کے لگ بھگ تھی جو بعد ازاں وزیراعظم بھٹو نے 62‘ صدر ضیاء الحق نے 85اور صدر مشرف نے 104کر دی تھی لیکن اس دوران اراکینِ سینیٹ کی مراعات میں اس قدر اضافے کی کم ہی کوششیں کی گئیں۔
آئینی طور پر قومی بجٹ کی تشکیل میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہوتا اور یہ محض تقاریر اور سفارشات تک ہی محدود ہوتا ہے لیکن ایوانِ بالا کے اراکین سے ملکی معیشت کی زبوں حالی پوشیدہ نہیں ہے۔ ایسے گمبھیر معاشی حالات میں مراعات میں اضافے کا بل چہ معنی دارد۔ زبوں حال معیشت پر پہلے ہی قرضوں کا بوجھ کیا کم ہے کہ اب عوامی خدمت گاروں کی مراعات میں اضافہ کرکے یہ بوجھ مزید بڑھا دیا جائے۔ گوکہ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی مراعات میں اضافے کا بل پیپلز پارٹی نے مسترد کردیا ہے لیکن ایوانِ بالا کے اُن اراکین نے ہوش مندی سے کیوں نہ کام لیا جنہوں نے اس بل کی حمایت کی۔ ایوانِ بالا کے اراکین کو تو ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر ایسے کسی بھی بل کو زیر بحث ہی نہیں لانا چاہیے تھا۔ انڈیا کا ایوانِ بالا بہت مضبوط و مستحکم ہے اور وہاں ایوانِ بالا کا رکن وزیراعظم بن سکتا ہے۔ منموہن سنگھ دو مرتبہ بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے‘ وہ ایوانِ بالا ہی کے ممبر تھے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیئرمین سینیٹ کی طرف سے اپنی مراعات میں اضافے کے بجائے انڈیا کی طرز پر ایوانِ بالا کے رکن کو وزیراعظم نامزد کرنے کیلئے تجویز پیش کی جاتی جس کے تحت سینیٹ کا کوئی بھی رکن وزیراعظم منتخب ہو سکتا۔ موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں ایسی کسی ترمیم پر کسی سیاسی جماعت کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا تھا کیونکہ اب بھی آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت ایک تہائی وزراء سینیٹ سے ہی لیے جاتے ہیں۔ ادھر نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت منعقدہ کابینہ اجلاس میں چار ماہ کا ٹیکس فری بجٹ منظور کر لیا گیا ہے۔بجٹ کی منظوری کے بعد نگران وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ پنجاب کی نگران کابینہ نے آرٹیکل 126 کے تحت چار ماہ کے آمدن اور اخراجات کی منظوری دے دی ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیاجبکہ گندم کی ادائیگیوں پر 600 ارب روپے کا قرض فوری اتارنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس قرض پر روزانہ 25 کروڑ روپے سود ادا کیا جا رہا تھا اور اگر یہ قرض فوری ادا نہ کیا جاتا تو یہ اس سال کے آخر تک 1100 ارب روپے ہو جانا تھا۔
اب لگتا ہے کہ ملک عام انتخابات کی شاہراہ پر گامزن ہو رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں عام انتخابات کی تیاریوں کا آغاز کر دیا گیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کی بروقت تکمیل میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی۔ ریٹرننگ افسران بیورو کریسی سے ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن کے انعقاد کے لیے ضروری میٹریل اور بیلٹ پیپرز کے لیے خصوصی کاغذ کی خریداری کر لی ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تیاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے فوراً بعد الیکشن کمیشن نے انتخابی جنگ کا طبل بجا دینا ہے۔ سینیٹ کے اور قومی اسمبلی کے ارکان کو ادراک ہونا چاہیے کہ اگر اس موقع پر وہ اپنی مراعات میں اضافے کا کوئی بھی بل منظور کرتے ہیں تو انہیں آئندہ الیکشن میں اس کے شدید منفی اثرات برداشت کرنا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں