"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات 2023، امکانات اور توقعات

سیاسی عدم استحکام سے ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے‘ معاشی بدحالی بھی اسی کا نتیجہ ہے' مگر یہ وقت مفاہمت اور آئین کی پاسداری کی راہیں تلاش کرنے کا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کی سرکردہ شخصیات کی مفاد پرستی پاکستان میں عدم استحکام کا بنیادی سبب بنی اور یہ سلسلہ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا۔ درمیان میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورِ حکومت میں معاشی استحکام کا ماحول بنا لیکن ان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد سیاسی عدم استحکام کا سلسلہ پھرشروع ہو گیا۔
سانحہ نو مئی ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے واقعات میں اہم ترین ہے جس کے اکثر ملزمان اب قانون کی گرفت میں آ چکے ہیں اور ان کے خلاف سول اور فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جارہے ہیں۔اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے گزشتہ دنوں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں واضح کیا گیاکہ سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو سکتا ہے۔ فوجی ترجمان نے نو مئی کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر چیئرمین تحریک انصاف کی جانب واضح اشارے کیے البتہ حکمت عملی کے تحت ان کا نام نہیں لیا۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں سانحہ نو مئی کے پس منظر‘ محرکات اور مضمرات کے حوالے سے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا جس سے اُس روز رونما ہونے والے واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال واضح ہو گئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ جی ایچ کیو سمیت دو سو سے زائد فوجی تنصیبات پر حملے‘ شہدائے وطن کی یادگاروں کی بے حرمتی اور حساس مقامات کو نذرِ آتش کرنے کی مذموم کارروائیاں پاکستان کے خلاف سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہیں جن کی منصوبہ بندی کئی مہینوں سے جاری تھی‘ جس کے ماسٹر مائنڈز وہی ہیں جنہوں نے فوج کے خلاف بیانیہ بنایا‘ عوام کی ذہن سازی کی اور انقلاب کا جھوٹا نعرہ لگوا کر نوجوانوں کو بغاوت پر اکسایا۔ فوجی قیادت اور افواجِ پاکستان اس سازش کے ذمہ داروں سے پوری طرح آگاہ ہیں اور اس کے منصوبہ سازوں اور ذمہ داروں اور سہولت کاروں کو‘ خواہ ان کا تعلق کسی ادارے یاسیاسی جماعت سے ہو‘ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ احتساب کا عمل خود فوج سے شروع کیا گیا ہے اور انکوائری اور سفارشات کی روشنی میں ایک لیفٹیننٹ جنرل سمیت تین فوجی آفیسرز کو برطرف کیا گیا ہے جبکہ تین میجر جنرلز اور سات بریگیڈیئرز سمیت 15 آفیسرز کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی گئی ہے جو متاثرہ تنصیبات اور مقامات کی سکیورٹی یقینی بنانے میں ناکام رہے۔ ایک ریٹائرڈ فور سٹار جنرل کی نواسی‘ ایک کا داماد اور دو کی بیگمات کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد کی بنا پرکارروائی کی گئی ہے۔ شرپسندوں کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے ملک بھر میں 17 فوجی عدالتوں کو ذمہ داری سونپی گئی ہے جو نئی قائم نہیں ہوئیں بلکہ پہلے سے موجود ہیں۔ سول کورٹس نے قانون کے مطابق سویلین کے مقدمات ان عدالتوں میں منتقل کیے ہیں اور 102 شرپسندوں کے خلاف مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ پاکستان کو بڑا خطرہ اندرونی انتشار سے ہے اگر اس کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ بیرونی یلغار کا راستہ ہموار کرے گا۔ اب تک کی تحقیقات میں بہت سے شواہد مل چکے ہیں اور مل رہے ہیں۔کوئی سیاسی جماعت اپنے ورکروں کو فوج پر حملہ آورہونے کا کہے گی یہ سوچا بھی نہیں تھا۔نو مئی کو جس طرح حملے کیے گئے ان کا مقصد فوج کو اشتعال دلا کر فوری ردعمل کے لیے مجبور کرنا تھا تاکہ عوام کو اس کے مقابلے میں لایا جا سکے مگر فوج نے تحمل سے کام لے کر گھناؤنی سازش کو ناکام بنا دیا۔ ایک سال سے سیاسی مقاصد اور اقتدار کی ہوس میں بے بنیاد پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر چلایا جا رہا تھا اور شر انگیز بیانیے سے عوام کی ذہن سازی کی جا رہی تھی اور اندرون اور بیرون ملک لابسٹ فرموں کے ذریعے افواجِ پاکستان کا مورال ڈاؤن کرنے کی مہم شروع کررکھی تھی۔
اب کچھ ذکر نگران صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار اور تقسیم اختیار کا‘ تو اس ضمن میں یہ جان لینا ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اصولی طور پر صوبائی نگران حکومت کے رولز آف بزنس میں مداخلت سے گریز کرتی ہے‘ تاہم لاہور میں پچھلے دنوں شدید بارش سے پیدا ہونے والے حالات میں وزیراعظم پاکستان کے ریمارکس میں صوبائی انتظامیہ کو گائیڈ لائنز دی گئیں‘حالانکہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ سید محسن نقوی کی ہدایات پر کابینہ کے تمام ارکان نے واسا ہیڈ آفس کا رات ہی دورہ کیا تھا‘ خود میں نے بطور مشیر وزیراعلیٰ پنجاب برائے قانون و پارلیمانی امور مون سون بارشوں اور واسا لاہور کی تیاریوں کے حوالے سے جائزہ لیا تھا اور بعد ازاں صوبائی وزیر اوقاف اور ہاؤسنگ سید اظفرناصر کے ہمراہ لاہور کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے بھی بریفنگ لی تھی۔ بارشوں کی سیلابی صورتحال سے وزیراعلیٰ محسن نقوی عرفات اور منیٰ کے مقامات سے بھی کابینہ کے ارکان کو ہدایات دیتے رہے اور حکومتی مشینری نے چند گھنٹوں میں صورتحال پر قابو پا لیا۔ عموماً نگران حکومتیں آئین کے آرٹیکل 224اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 230 کے تحت الیکشن کمیشن کوجوابدہ ہوتی ہیں اور انتظامی سطح پر بھی الیکشن کمیشن کے احکامات پر ہی عمل کرنا ہوتا ہے۔
انتخابات کی بات کی جائے تو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57 میں ترمیم کے بعد آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کا اختیار الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا ہے۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 11 کے تحت یہ اختیار صدر مملکت کو حاصل رہا ہے مگر الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت کو شامل کر لیا گیا تھا‘ یعنی صدر مملکت الیکشن کمیشن کی مشاورت سے الیکشن کی تاریخ کا تعین کریں گے اور یہ قانونی روایات 1962ء سے 2013ء تک برقرار رہی اور صدر مملکت ہی الیکشن کی تاریخ کا تعین کرتے رہے اور الیکشن کی تاریخ میں ردوبدل کے اختیارات دفعہ 58 کے تحت الیکشن کمیشن کو حاصل رہے۔عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 11(اے) کے تحت الیکشن کمیشن ماضی میں بھی تاریخوں میں رد و بدل کرتا رہا ہے۔ اب چونکہ الیکشن کمیشن کی نظرِثانی کی اپیل سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے اور بظاہر یوں نظر آ رہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے آٹھ اکتوبر کو انتخابات کروانے پر متفق ہو جائے گی۔ اگر قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کی اسمبلیاں 12 اگست کو تحلیل ہوتی ہیں تو بیک وقت انتخابات آٹھ اکتوبر کو ہی ہو جائیں گے اگر قبل از وقت قومی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو عام انتخابات دس نومبر کے قریب ہو ں گے‘ بشرطیکہ حالات پُرامن رہیں۔اس ضمن میں عمران خان کی نااہلیت اور گرفتاری کے ردعمل کو بھی دیکھا جائے گا۔دوسری جانب الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2023ء میں انتخابی نشان الاٹ کرنے کے لیے درخواستیں طلب کرلی ہیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں مختص شدہ انتخابی نشان کے لیے درخواستیں جمع کروائیں‘ درخواستیں پارٹی سربراہ کے دستخط کے ساتھ 19 جولائی تک دی جاسکتی ہیں۔الیکشن کمیشن تحریک انصاف کو انتخابی نشان الاٹ کرتے وقت الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 204‘209اور 210 کومد نظر رکھنے کا مجاز ہے۔ تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت بھی جاری ہے ان حالات میں الیکشن کمیشن تمام زمینی حالات کو مد نظر رکھے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں