"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات کا تسلسل؛جمہوریت کا لازمی جزو

انتخابات کا تسلسل جمہوریت کا لازمی جزو ہے۔ 1945ء کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کا آرٹیکل (3)21 اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ کسی بھی حکومت کی تشکیل عوام کی مرضی پر منحصر ہو گی اور عوام اس مقصد کیلئے متواتر اور حقیقی انتخابات میں مساوی حقِ رائے دہی استعمال کریں گے‘ تاہم 1976ء کا سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ یہ وضاحت کرتا ہے کہ کسی ہنگامی صورت میں‘ قومی سلامتی کو اگر کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو حالات کی مناسبت سے رکن ممالک انتخابات کی قانونی معیاد میں توسیع کر سکتے ہیں۔ اس معاہدے میں انتخابات کے انعقاد کی کسی حتمی مدت کو قطعی ترجیح نہیں دی گئی لیکن اس ضمن میں نظریۂ ضرورت کا اطلاق صریحاً غلط ہے۔ کورونا وائرس نے کم از کم 29ممالک میں انتخابات کا شیڈول متاثر کیا تھا۔ 19ممالک میں بروقت انتخابات منعقد کرانے کا فیصلہ ہوا لیکن صرف 9ممالک ہی مقررہ وقت پر الیکشن منعقد کروا سکے۔
ملکِ عزیز میں اگلے عام انتخابات کو التوا میں ڈالنے کے حوالے سے ابھی تک کسی حلقے کی طرف سے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے‘ اس حوالے سے کوئی واضح عدالتی فیصلہ بھی موجود نہیں ہے لیکن پھر بھی اس تصویر کے دو رخ ہیں۔ اگر انتخابات ملتوی ہونے سے حکومتی اداروں کے کمزور ہونے کا احتمال ہے تو کسی مناسب نظام کی عدم موجودگی جمہوری اقدار کو ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ موزوں وقت سے پہلے انتخابات پر اصرار کے حوالے سے عمومی رائے یہی ہے کہ کہیں یہ اصرار اقتدار پر قبضہ کی تاویل نہ ہو۔ جیسا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے کہنے پر رواں برس 14جنوری کو چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اور 18جنوری کو محمود خان نے خیبر پختونخوا اسمبلی بلاوجہ تحلیل کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 112کا سہارا لیا جبکہ ایسا کرکے ان دونوں وزرائے اعلیٰ نے آئین کے آرٹیکل 17کی خلاف ورزی کی جس میں سیاسی جماعتوں کو عوام کی حقیقی نمائندگی کی ضمانت دی گئی ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 5اور 7نے ریاست کے مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی ہدایت بھی کر رکھی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اسمبلی کی تحلیل سے چند روز پہلے تک پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 170ارب روپے سے زائد کی تاریخی گرانٹ منظور کرنے اور پنجاب اسمبلی میں ریکارڈ قانون سازی کی تشہیر کرتے رہے۔ لیکن چوہدری پرویز الٰہی کی بطور وزیراعلیٰ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس آئین کے آرٹیکل 17کے خلاف تھی۔ بہرحال دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا مقصد وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا۔شنید ہے کہ اس ساری کارروائی کا اصل مقصد نئے آرمی چیف کی راہ میں رخنے ڈالنا تھا کہ وہ کسی طرح سیاست میں مداخلت کریں۔ تحریک انصاف کی قیادت نے نئے آرمی چیف کی تقرری سے قبل بھی قومی اسمبلی کی تحلیل کی کوشش کی تھی کیونکہ نگران وزیراعظم آرمی چیف کے تقرر کی آئینی و قانونی حیثیت نہیں رکھتا لیکن اتحادی حکومت نے کسی قسم کے دباؤ میں نہ آ کر چیئرمین تحریک انصاف کی منصوبہ بندی کو ناکام بنا دیا جبکہ نظامِ انصاف بھی بظاہر عمران خان کے ساتھ تھا۔
ملک اس وقت کسی قدرتی یا ناگہانی آفت کا شکار نہیں ہے جس کی بنا پر انتخابات ملتوی کیے جائیں‘ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کے سٹیند بائی معاہدے کے بعد معاشی معاملات میں بھی بہتری دیکھی گئی ہے۔ ڈالر نیچے آیا ہے اور پیر کے روز پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ایک ہی روز میں 24سو سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ ہوا۔ 88فیصد کمپنیوں کے حصص کی قیمت بڑھ گئی۔ سرمایہ کاری میں اربوں روپے کا اضافہ دیکھا گیا۔ سونے اورچاندی کے نرخ بھی کم ہوئے۔ مئی کے مقابلے میں جون میں مہنگائی میں کمی بھی دیکھی گئی۔ مئی میں ماہانہ مہنگائی کی شرح 38فیصد تھی جبکہ جون میں یہ شرح 29.4فیصد ریکارڈ کی گئی۔ زرِمبادلہ کے ذخائر بھی چار ارب ڈالر سے زائد ہو گئے ہیں۔ قومی بچت سکیموں میں منافع کی شرح بڑھا دی گئی ہے جس سے تقریباً 35لاکھ گھرانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ ان حالات کے پیش نظر اب یہی دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ حکومتی سیٹ اَپ اپنی مقررہ مدت یعنی 12اگست تک تو ضرور قائم رہے گا اور ابھی تک حکومتی حلقوں کی طرف سے الیکشن کے التوا کے کوئی واضح اشارے نہیں ملے ہیں۔
دوسری طرف شنید ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی ممکنہ گرفتاری سے بچنے اور اپنی سیاست کو باقی رکھنے کے لیے مقتدر حلقوں سے رابطے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ وہ امریکی لابنگ فرموں کے ذریعے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے بھی رابطہ میں ہیں۔ میں امریکی نظام کا بغور جائزہ لے چکا ہوں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وفاقی سیکرٹری کی حیثیت سے امریکی حکام میرے رابطے میں رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنے اتحادی اور غیر اتحادی ممالک سے تعلقات برقرار رکھنے کے لیے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رائے کو ہی اہمیت دیتا ہے جبکہ پینٹاگون کا معاملہ سکیورٹی معاملات تک محدود رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی خوشنودی کے لیے ہمارے سیاستدان بھی وہاں کے چکر لگاتے رہتے ہیں اوراس مقصد کیلئے بھاری رقوم کے عوض طاقتور اور فعال لابسٹس کو ہائیر کرتے ہیں۔ اپنے حق میں امریکہ میں ہونے والی لابنگ کی وجہ سے ہی شاید چیئرمین پی ٹی آئی مطمئن ہیں اور نئی کور کمیٹی تشکیل دے کر پارٹی کو منظم کر رہے ہیں۔یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کی صورت میں پارٹی کارکنان کی طرف سے ایسا کوئی ردِ عمل نہ دیا جائے کہ حکومت کو الیکشن کے التوا کا کوئی جواز مل جائے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں احتجاج کا کوئی امکان نہیں جس سے الیکشن شیڈول پر کوئی اثر پڑے گا۔ تحریک انصاف کی طرف سے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ ایوارڈ ہونا شروع ہو چکے ہیں جن کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہو گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ‘ ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطگی اور توہینِ الیکشن کمیشن کے جو کیسز سماعت کے لیے مقرر کر رکھے ہیں‘ چیئرمین پی ٹی آئی نے ان کے خلاف مختلف عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل لیے ہوئے ہیں۔ شنید ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بعض ایسے ریٹائرڈ اعلیٰ افسران کی حمایت حاصل ہے جو اب انہیں پُرامن رہنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
ادھر الیکشن کمیشن اگلے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کیلئے تیاریوں میں مصروف ہے لیکن لگتا ہے کہ نئی مردم شماری پر اٹھنے والے اعتراضات اور مردم شماری کے حتمی نتائج کے حوالے سے بروقت سرکاری گزٹ نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کے باعث عام انتخابات کا انعقاد فروری 2024ء سے پہلے ممکن نہیں۔ اس دوران امن و امان کی صورت حال کے بارے میں بھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی 9مئی کے واقعات سے اظہارِ لاتعلقی کے باوجود مقتدرہ کے خلاف محاذ گرم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی سوشل میڈیا پر جاری سرگرمیوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ اپنے پرانے بیانیے پر ہی کاربند ہیں۔ وہ بے چینی سے نگران وزیراعظم کے تقرر کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ نگران وزیراعظم کے اختیارات محدود ہوتے ہیں اور اگر اس دوران لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ درپیش آیا تو بیورو کریسی نگران وزیراعظم کی معاونت نہیں کرے گی۔ اب تک کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو نگران وزیراعظم کسی ایسی شخصیت کو لگایا جانا چاہیے جو ایڈمنسٹریشن پر گہری گرفت رکھتا ہو۔ کوئی کمزور شخصیت یہ ذمہ داری بخوبی انجام نہیں دے سکتی جس کے واضح مظاہر ہم 2013ء اور 2018ء میں دیکھ چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں