"KDC" (space) message & send to 7575

قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع ممکن ؟

پوری دنیا جمہوری نظام کی افادیت کی معترف ہے لیکن ہمارے ہاں اس نظام کے خلاف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ نظام اپنی مقررہ مدت میں مطلوبہ نتائج نہیں دے پاتا جبکہ آٹوکریسی اور آمریت کے دوران ملک بہتر کارکردگی دکھاتا ہے۔ آمرانہ نظام میں بڑے بڑے فیصلے جلد کر لیے جاتے ہیں اور ان فیصلوں پر فوری عمل بھی شروع ہو جاتا ہے‘ اس لیے ترقی پذیر ممالک کیلئے یہ نظام بہتر ہے۔ آمرانہ نظام لیکن اپنی ان خصوصیات کے باوجود جمہوری نظام کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ جمہوری نظامِ حکومت میں طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہوتے ہیں‘ جہاں ہر شہری کو برابر حقوق حاصل ہوتے ہیں‘ جہاں انتظامی فیصلہ سازی منصفانہ طریقۂ کار سے عمل میں آتی ہے۔ اصل خوشحالی کا سفر بھی جمہوری نظامِ حکومت میں ہی طے کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوری نظام میں خوشحالی کا خواب اس لیے شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا کہ ہمارے جمہوری نمائندے حکومت میں رہتے ہوئے نہ صرف اپنے ذاتی مفادات کو اولین ترجیح دیتے رہے بلکہ بیوروکریسی کی تعمیری سرگرمیوں پر بھی قدغن لگاتے رہے۔
ہمارے ہاں جمہوری نظام میں رشوت‘ اقربا پروری اور بیڈ گورننس کی بنیاد 1985ء کے غیرجماعتی الیکشن کے بعد پڑی۔ اس الیکشن کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہونے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اسمبلی میں اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جو غیرجماعتی سسٹم کے برخلاف تھا۔ نومبر1985ء میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ایس اے نصرت نے صدر ضیاء الحق کے ایما پر محمد خان جونیجو کے خلاف ریفرنس بھجوا دیا اور قومی اسمبلی کے 170 اراکین کی نااہلی کا فیصلہ سنا دیا۔ پھر صدر ضیاء الحق نے ہی ایک آرڈیننس کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کو اس فیصلے پر عملدرآمد سے روک دیا اور ان کے ریفرنس کو کالعدم قرار دے کر محمد خان جونیجو کو بیل آئوٹ کرکے ان کو اپنے تابع کر لیا اور بعد ازاں ان کو 29 مئی 1988ء کو برطرف کرکے پارلیمانی نظام کی بساط الٹ کر ایک ایسی روایت کی داغ بیل ڈالی جو اکتوبر 1999ء کے سانحہ پر جا ختم ہوئی جبکہ صدر ضیاء الحق اس دوران خود طیارہ حادثے میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
آج کل ملکی سیاست تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ہر طرف تحریک انصاف کے تحلیل کیے جانے کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں۔ اگلے روز وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر اور استحکامِ پاکستان پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عون محمد چودھری نے پاکستان تحریک انصاف پرپابندی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔اس مقصد کے لیے انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائرکی ہے۔یہ پٹیشن ان کی طرف سے ذاتی حیثیت میں دائر کی گئی ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ تحریک انصاف کی ریاست اور ملکی اداروں کے خلاف سرگرمیاں غیرآئینی قرار دے کر اس جماعت کو تحلیل کرنے کا حکم دیا جائے۔عون چودھری نے تحریک انصاف کی تحلیل کیلئے آئین کے آرٹیکل(3) 184کا حوالہ دیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 17سے متصادم ہے لہٰذا پارٹی کے قانونی ماہرین کو ان تمام پہلوؤں کا ادراک ہونا چاہیے۔ کسی انفرادی ریفرنس سے کوئی پارٹی تحلیل نہیں ہو جاتی۔واضح رہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کے حوالے سے عدلیہ بھی اس وقت تک کوئی آئینی کردار ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ وفاقی حکومت اس پارٹی کو تحلیل کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 17کے تحت ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان کو نہ بھجوائے۔ لہٰذا تحریک انصاف کی تحلیل اسی صورت عمل میں آسکتی ہے جب وفاقی حکومت کی طرف سے اس مقصد کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس جمع کروایا جائے۔ اس مقصد کے لیے انفرادی حیثیت میں جمع کروایا گیا کوئی بھی ریفرنس اعلیٰ عدلیہ میں زیر غور نہیں آ سکتا۔ ایسی کسی بھی انفرادی کارروائی سے صرف عدلیہ کا قیمتی وقت ہی ضائع ہوگا۔ اگر کسی انفرادی پٹیشن پر سیاسی جماعتوں کی تحلیل عمل میں آنے لگی تو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں تحلیل ہو جائیں گی۔ اسی لیے آئین نے یہ اختیارات صرف وفاقی حکومت ہی کو تفویض کیے ہیں۔
دوسری طرف استحکامِ پاکستان پارٹی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن استحکامِ پاکستان پارٹی ابھی تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس پارٹی کو تاحال کوئی انتخابی نشان الاٹ نہیں ہوا‘ اگر تحریک انصاف کی تحلیل کے حوالے سے حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں کوئی ریفرنس جمع کروایا جاتا ہے تو اس حوالے سے یہ حقائق بھی مدنظر رکھے جائیں گے کیونکہ استحکام پاکستان پارٹی میں تحریک انصاف ہی کے سابق اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی شامل ہیں۔
دوسری جانب یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ بریکنگ نیوز کی دوڑ میں کچھ صحافی حضرات صحافتی ضابطہ اخلاق کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھتے اور ایسی بے پر کی خبریں اڑاتے ہیں جن کا نہ سر ہوتا ہے نہ پیر۔ چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک صحافی کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے آئندہ الیکشن میں غیر ملکی مبصرین کو الیکشن کی مانیٹر نگ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر الیکشن شفاف طریقے سے کروانے کا دعویٰ ہے تو پھر الیکشن مانیٹر نگ کی اجازت سے انکار کیوں؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایسی کسی بھی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم انتخابی شفافیت اور انتخابی عمل کے مشاہدہ کیلئے قومی اور بین الاقوامی مبصرین کا ہمیشہ خیر مقدم کرتے ہیں۔اس مرتبہ بھی الیکشن کمیشن نے بین الاقوامی مبصرین کیلئے ایک جامع ضابطہ اخلاق تیار کیا ہے اور ایس او پیز کے مطابق بین الاقوامی مبصرین کیلئے دعوت نامے اگست 2023ء کے وسط تک بھیجنا شروع کر دیے جائیں گے۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی الیکشن کمیشن وزارتِ خارجہ کے ذریعے یہ دعوت نامے بھیجے گا۔الیکشن کمیشن کی طرف سے تردید کے بعد یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بین الاقوامی مبصرین کو اجازت نہ دینے سے متعلق تمام کہانیاں اور افواہیں مفروضوں پر مبنی اور محض سستی شہرت حاصل کرنے کی ایک مذموم کوشش تھیں۔
الیکشن کمیشن کے اس بیان سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت کے مطابق 12اگست تک تحلیل ہو جائے گی اور اگلے عام انتخابات اپنی مقررہ مدت پر ہی ہوں گے۔ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں پہلے ہی تحلیل ہو چکی ہیں جبکہ سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی توسیع کا بھی کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے‘ یوں چاروں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد قومی اسمبلی بھی مقررہ مدت پر ہی تحلیل ہو گی۔ لیکن یہ صورتحال 12اگست کو ہی واضح ہو گی کہ یہ اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں یا تب تک ان کی توسیع کا کوئی منصوبہ عمل میں آ جائے گا؟ اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق اگلے عام انتخابات کا ایکشن پلان تیار کر رہا ہے جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ الیکشن کمیشن 2023ء کے آخر میں الیکشن کرانے کا خواہاں ہے۔ الیکشن نومبر کے اوائل میں ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ موجودہ الیکشن ایکٹ صاف اور شفاف انتخابات کی مکمل طور پر ضمانت دیتا ہے۔ بعض تجزیہ کار الیکشن میں تاخیر کی وجہ نئی مردم شماری کے حتمی نتائج کے اعلان میں تاخیر بھی بتاتے ہیں لیکن جب تک نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو جاتا تب تک 2017ء کی مردم شماری ہی نافذ العمل ہو گی۔ البتہ 2023ء کی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہو گیا تو عام انتخابات کا پروگرام تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن میں نئی مردم شماری کے گزٹ نوٹیفکیشن کے بعد اپنے مقررہ وقت سے پہلے حلقہ بندیوں کو مکمل کرکے انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا روڈ میپ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں