"KDC" (space) message & send to 7575

سبز انقلاب اورمعاشی خود انحصاری

وزیر اعظم شہباز شریف نے اگلے روز کنونشن سنٹر اسلام آباد میں گرین پاکستان انیشی ایٹوسیمینار میں غذائی تحفظ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے‘ ملک میں 1960ء کے بعد دوسرا سبز انقلاب لایا جارہا ہے اور اس سے ملک کو خوشحالی کی راہ پر ڈالیں گے۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے بھی مذکورہ سیمینار میں خصوصی شرکت کی جس سے واضح ہو جانا چاہیے کہ حکومت اور ملکی ادارے ملک میں سبز انقلاب لانے کے حوالے سے یکساں پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ سیمینار میں کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے سے جدید طریقہ کار‘ پبلک اور پرائیویٹ پارٹنر شپ اور لائیو سٹاک کی ابھرتی مارکیٹ کے موضوعات پر بھی بحث ہوئی۔حکومتِ پاکستان اور پاک فوج کی مشترکہ کاوشوں سے پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے‘ اس نظام کا مقصد بنجر زمین کو ذرخیز بنانا اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران پر قابو پانا ہے۔لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے پلیٹ فارم کے تحت لِمز (LIMS) کا شاندار افتتاح پہلے ہی 7 جولائی کو وزیر اعظم اور آرمی چیف کر چکے ہیں۔
وزیراعظم نے آرمی چیف کی معاونت سے ملک میں 1960ء کے بعد جس دوسرے سبز انقلاب کی بنیاد رکھی ہے اور ملکی معیشت کو صدر ایوب خان کے دورِ حکومت کی طرز پر آگے بڑھانے کا جو عزم ظاہر کیا ہے‘ وہ پاکستان کے باشعور‘ باہمت اور محب وطن عوام کے دل کی آواز ہے۔ گرین پاکستان انیشی ایٹوسیمینار میں خطاب کرتے ہوئے جنرل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ہم باصلاحیت قوم ہیں‘ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم مل کر ملک کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں‘ ہم پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بحیثیت ادارہ ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ پاکستان نے ترقی کی منازل طے کرنی ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی‘ ہمارے پاس ہر طرح کی صلاحیت موجود ہے جو پاکستان کوعروج پر لے جا سکتی ہے۔
پاکستان بیرونی دنیا میں ایک زرعی ملک کی حیثیت سے ممتاز مقام رکھتا ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1951ء میں امریکہ کا دورہ کرتے ہوئے وہاں پاکستان کا تعارف عظیم زرعی ملک کے طور پر کروایا تھا اور امریکہ سے زرعی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے معاہدے طے کیے تھے۔ پاکستان 1947ء سے سقوطِ مشرقی پاکستان تک گندم‘ چاول‘ پٹ سن اور دوسری غذائی اجناس اور ان کی مصنوعات برآمد کرتا تھا اور ان سے کثیر زرِ مبادلہ کماتا تھا مگر اسے اربابِ اختیار کی غفلت اور نااہلی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ اب ہمیں یہ سب اجناس اپنا قیمتی زرِمبادلہ خرچ کرکے درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان غذائی قلت کا شکار بھی ہو چکا ہے اور اب بھی تقریباً 37فیصد آبادی کو غذائی قلت اور ان میں سے 18 فیصد سے زائد کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے۔
گرین پاکستان انیشی ایٹو کو بجا طور پر زرعی انقلاب کا نام دیا جا سکتا ہے‘ جس میں آرمی چیف نے بطور ادارہ بھرپور معاونت کا یقین دلایا ہے۔ وزیراعظم کے مطابق انہیں اس زرعی انقلاب کا مشورہ بھی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ہی دیا تھا جس پر وہ ان کے شکر گزار بھی ہیں۔ وزیراعظم کے مطابق اس زرعی انقلاب سے اگلے چار پانچ سال تک زراعت کے شعبے میں 30سے 40ارب ڈالر سرمایہ کاری ہو سکتی ہے اور گرین پاکستان انیشی ایٹو پروگرام کے تحت 40 لاکھ لوگوں کو روزگار میسر آئے گا جبکہ ملکی افرادی قوت کا 40فیصد پہلے ہی اس شعبے سے منسلک ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ایک دو سال میں زرعی معیشت بحال ہو جائے گی پھر ہمیں بیرونِ ملک جا کر قرضے نہیں مانگنا پڑیں گے۔
1958ء میں صدر ایوب خان نے ملک میں پہلے سبز انقلاب کی بنیاد رکھی تھی جس کے پہلے پانچ سالہ منصوبہ کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد پاکستان ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑا ہو گیا اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں زرعی برآمدات کی بدولت اضافہ ہونے لگا۔ اس دوران ملک میں صنعتوں کا جال بھی بچھایا گیا۔ گو کہ اس وقت ملک میں جمہوری نظام رائج نہیں تھا لیکن امن و امان اور سکیورٹی نقطۂ نظر سے پاکستان برصغیر کااہم ترین ملک بن چکا تھا۔ بین الاقوامی معاہدے ہو رہے تھے۔ ایران‘ انڈونیشیا‘ ترکی‘ سعودی عرب‘ سری لنکا اور مغربی ممالک کے حکمران بھی پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں کے معترف تھے اور ان سے مستفید ہونا چاہتے تھے۔ جنوبی کوریا پاکستان کے پہلے اور دوسرے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کی دستاویزات سرکاری طور پر حاصل کرکے ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور دیکھیں آج وہ کہاں کھڑا ہے۔لیکن پاکستان کی اُس زرعی اور صنعتی ترقی سے ملک دشمن عناصر خائف تھے اور کسی بھی طرح اس ترقی کا راستہ روکنا چاہتے تھے۔اس ساری کارروائی میں بھارت بھی پیش پیش تھا کیونکہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی بھارت سے دیکھی نہیں جا رہی تھی اور پاکستان کی خوشحالی کے پیش نظر وہاں موجود علیحدگی پسند تحریکوں کو مزید تحریک مل رہی تھی۔ لیکن بالآخر یہ ساری سازشیں سقوطِ ڈھاکہ پر جا کر منتج ہوئیں۔
اب جبکہ حکومت اور عسکری ادارہ ملک میں سبزانقلاب لانے کیلئے ایک پیج پر ہیں اور گرین پاکستان انیشی ایٹو پروگرام یقینی طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوگا لیکن ہمیں پاکستان مخالف عناصر سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا جو ملکی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں 1966ء سے 1973ء تک سی آئی اے کے ڈائریکٹررہنے والے Richard Helms کی خود نوشت A Look Over My Shoulder: A Life in the Central Intelligence Agencyکا مطالعہ کرنا چاہیے جس میں ان پاکستان مخالف معاشی ضرب کاروں کا ذکر بھی ہے جنہوں نے سی آئی اے کی ایما پر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کو ہوا دی اور صدر ایوب خان کے تیسرے اور چوتھے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ ملک کی معاشی ترقی کی راہ ہموار کرنے کیلئے پلاننگ کمیشن آف پاکستان سے ایوب خان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے سے چوتھے پانچ سالہ منصوبے تک کی دستاویزات حاصل کریں اور اس کے مطالعہ اور اس پر عملدرآمد کرانے کیلئے معاشی ماہرین کی اعلیٰ سطحی ٹیم بنائیں۔ معاشی اصلاحات کیساتھ ساتھ سیاسی‘ انتخابی‘ عدالتی اور پولیس اصلاحات کی طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے‘ لیکن ملکی وحدت اور سالمیت کی بقا کیلئے یہ اصلاحات اب ناگزیر ہیں۔صدر ایوب خان کے معاشی منصوبوں کا جائزہ لینے سے یہ بات بھی سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ان کے 11 سالہ دورِ حکومت میں ڈالر پونے چار روپے سے آگے کیوں نہ بڑھ سکا جو اب 300 روپے کی حد چھونے لگا ہے اوریہ کہ ہم ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم رکھنے میں ناکام کیوں رہے ہیں۔ سابق صدر ایوب خان نے جس شخص کو معاشی ضرب کار قرار دیا تھا اور اس کی وطن دشمنی سے پردہ بھی اٹھایا تھا‘ پاکستان کی بدقسمتی دیکھیے کہ سابقہ حکومتوں نے اسے ملک کا وزیر خزانہ اور سینیٹر منتخب کرا کے ملک کی معاشی باگ ڈور اسی کے حوالے کر دی تھی۔
حکومت اور ریاستی ادارے نے ملک کو مضبوط معاشی بنیادوں پر کھڑا کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ملک کے سیاسی اور انتخابی نظام کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ میرے نزدیک اگر موجودہ صورتحال میں انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو ملک مزید عدم استحکام کی طرف جائے گا کیونکہ ان انتخابی نتائج کو متنازع بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں