"KDC" (space) message & send to 7575

دہشت گردی کے بڑھتے خطرات

پیر کے روز چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت منعقدہ 258ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو پڑوسی ملک میں حاصل پناہ گاہیں اور جدید ہتھیاروں کی دستیابی پاکستان کی اندرونی سلامتی متاثر کرنے والی بنیادی وجوہات ہیں۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق کانفرنس میں دہشت گردی کے خطرات کے خلاف مادرِ وطن کے دفاع میں مسلسل اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کرنے والے بہادر سپاہیوں کو خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا۔ اس سے قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر 14جولائی کو ژوب میں دہشت گردی کے حملے میں زخمی ہونے والے اہلکاروں کی کوئٹہ میں عیادت کے موقع پر بھی افغانستان میں ٹی ٹی پی کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے دستیاب مواقع پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ 15 جولائی کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا حق ادا نہیں کر رہا اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 50سے 60لاکھ افغان شہری تمام تر حقوق کے ساتھ پاکستان میں 4سے 5دہائیوں سے پناہ لیے ہوئے ہیں‘ اس کے بر عکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سر زمین پر پناہ گاہیں میسر ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ آٹھ دس روز کے دوران ملک میں دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ 12جولائی کو بلوچستان میں ژوب گیریژن میں دہشت گردوں کے حملے میں 9فوجی جوان شہید اور جوابی کارروائی میں 5دہشت مارے گئے تھے۔ اُسی روز سوئی میں فوجی آپریشنز کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 3جوانوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ پیر کے روز پھر سے دہشت گردوں نے ژوب چھاؤنی میں گھسنے کی کوشش کی جسے فوجی جوانوں نے بروقت کارروائی کرکے ناکام بنا دیا۔ گزشتہ روز پشاور میں بھی ایک خود کش دھماکہ ہوا جس میں آٹھ سکیورٹی اہلکار شدید زخمی ہوئے۔ ملکِ عزیز اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے‘ دہشت گرد عناصر پھر سے سر اٹھا رہے ہیں‘ بالخصوص صوبہ بلوچستان میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ملی اتحاد سے ہی ان حالات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اپنی وزارتِ داخلہ کے دور میں ایک انٹرویو کے دوران انکشاف کیا تھا کہ ملکی سالمیت کے حوالے سے ان کے پاس کچھ اہم راز ہیں جو انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم اور آرمی چیف سے شیئر کیے تھے۔ میرے بھی چودھری نثار علی خان سے دیرینہ مراسم ہیں‘ ایک ملاقات کے دوران انہوں نے اُن رازوں کے حقیقت پر مبنی ہونے کا دعویٰ کیا تھا لیکن وہ فی الحال خاموش ہیں۔ موجودہ قیادت کو چودھری نثار علی خان سے اس بابت رابطہ قائم کرنا چاہیے۔
ادھر سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے اپنی نئی سیاسی جماعت 'پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز‘ بنانے کا اعلان کیا ہے‘ جس میں سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اہم نام بھی شامل ہیں‘ جن میں خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ محمود خان بھی شامل ہیں۔ پارٹی کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نئی پارٹی میں شامل رہنماؤں نے 9مئی کے واقعات کا ذمہ دار سابق وزیراعظم عمران خان کو قرار دیا ہے اور سانحہ 9 مئی کے واقعات پر ان محب وطن سیاست دانوں نے پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرلیں۔ اس نئی پارٹی کے قیام پر پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا کہ مون سون جاری ہے اور ملک میں ساون کے گھاس کی طرح سیاسی جماعتیں اُگ رہی ہیں۔ پرویز خٹک کوتحریک انصاف میں مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کی وزارتِ اعلیٰ اور وزیر دفاع کے عہدوں پر براجمان رہ چکے ہیں۔ ان کی نئی سیاسی جماعت کا مقصد آئندہ انتخابات میں اپنی سیاسی حیثیت منوانا اور اس کے مطابق اقتدار میں حصہ حاصل کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی کی صورت میں وہ تحریک انصاف کی چیئرمینی سنبھال سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی الگ سیاسی جماعت کے قیام سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں کہ وہ کامیابی سے سیاسی جماعت کی قیادت کر سکتے ہیں۔ پرویز خٹک کے سیاسی اثرو رسوخ کے باوجود ان کی نئی سیاسی جماعت صرف خیبر پختونخوا تک ہی محدود رہے گی جس طرح استحکامِ پاکستان پارٹی صرف جنوبی پنجاب کی سیاست پر اثر انداز ہوتی نظر آتی ہے۔ ان حالات میں ایسا لگتا ہے کہ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اتحاد ی بن سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پرویز خٹک نے اپنی نئی سیاسی جماعت کی بنیاد چند اہم ترین سابق بیوروکریٹس کی مشاورت کے بعد رکھی ہے اور انہیں اپنے نئے سیاسی سفر کے دوران اُن بیوروکریٹس کی بھرپور معاونت بھی حاصل رہے گی۔ پرویز خٹک کے پاس وقت کی کمی ہے کیونکہ پارٹی کی رجسٹریشن میں ابھی وقت لگے گا اور قومی انتخابات کا بگل بس بجنے والا ہے۔
دوسری طرف چیئرمین تحریک انصاف اس وقت مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات سے قبل ان کے خلاف درج مقدمات کے سلسلے میں ان کے گرد قانونی گھیرا مزید تنگ ہو جائے گا۔ ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ کیس‘ توہینِ الیکشن کمیشن کیس اور ممنوعہ فنڈنگ کیس چل رہے ہیں جبکہ سانحہ نو مئی کے بعد بھی وہ متعدد مقدمات میں نامزد ہیں۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد 8جولائی کو توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دے چکی ہے جبکہ گزشتہ روز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے ہی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے خلاف غیر شرعی نکاح کیس بھی قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے انہیں اور ان کی اہلیہ کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔ شنید ہے کہ سانحہ نو مئی کے حوالے سے درج مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی کئی قریبی شخصیات ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے تیار ہیں جن میں دو اہم ترین بیوروکریٹس بھی شامل ہیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں چیئرمین پی ٹی آئی کاسیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ایسی کسی صورتحال میں وہ پھر سے کوئی یوٹرن لے لیں۔
اگست کے دوسرے ہفتے میں موجودہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہو رہی ہے۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے پر حکومت تحلیل ہونے کے بیانات جاری کر رہے ہیں۔ اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران حکومت کے قیام کا مرحلہ درپیش ہوگا۔ نگران حکومت کے قیام کے بعد الیکشن کمیشن الیکشن کا شیڈول جاری کرے گا۔ الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل کے مکمل اختیارات حاصل ہیں اور نگران حکومتوں کو اس دوران صرف انتظامی معاملات بہتر طور پر چلانا ہوں گے۔ شنید ہے کہ دبئی میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی ملاقات کے دوران نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق ہو چکا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس بار نگران وزیراعظم ایک سیاسی شخصیت ہوگی جس کے نام پر تحریک انصاف سمیت کسی سیاسی جماعت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن اگر کسی نام پر اتفاقِ رائے نہ ہو سکا تو آئین کے آرٹیکل 224اور 224(اے) کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان نگران وزیراعظم نامزد کرے گا اور اس کا فیصلہ حتمی ہوگا جسے چیلنج نہیں کیا جا سکے گا جبکہ کابینہ کی تشکیل میں نگران وزیر اعظم بااختیار ہوں گے اور کسی پارلیمانی جماعت کا کابینہ کی تشکیل میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نگران وزیراعظم کی گرفت کتنی مضبوط ہو گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں