"KDC" (space) message & send to 7575

نگران حکومت کے اختیارات

قومی اسمبلی کے الوداعی اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 224 سے بالاتر ہو کر الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 230 میں ترامیم کرتے ہوئے نگران سیٹ اَپ کو بڑے فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے ۔ اب نگران حکومت روزمرہ کے امور نمٹانے تک محدود نہیں ہو گی بلکہ اسے عالمی معاہدے اور پالیسی فیصلے کرنے کا بھی اختیار ہو گا۔ نگران حکومت کو عام حالات میں تین یا چار ماہ کے لیے ملک چلانا ہوتا ہے لیکن ملک کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے انہیں اہم معاشی فیصلوں کا اختیار دیا گیا ہے‘ جس پر حکومت کے اہم اتحادیوں نے بھی اعتراض کیا ہے۔دفعہ230 میں ترمیم پر سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ نگران حکومت کو اضافی اختیارات دے کر ایک منتخب حکومت کے برابر لانا ''آئین کے قتل‘‘کے مترادف ہے۔ بہت سے اراکین نے اپنی تقریروں میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ نگران حکومت کو بااختیار بنانے سے متعلق ترمیم دراصل آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے ہے۔بہرکیف حکمرانوں کی سطح پر یہ سمجھا گیا ہے کہ نگران دور میں محدود اختیارات کی وجہ سے ملک کا معاشی اور ترقیاتی نظام مفلوج ہو جاتا ہے کیونکہ آئین انہیں صرف روزمرہ کے امور اور انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت تک محدود رکھتا ہے‘ لیکن ملک کے مخصوص معاشی حالات اور آئی ایم ایف کے ساتھ حال ہی میں ہونے والے معاہدے کی شرائط پر عمل یقینی بنانے یا بعض دیگر معاشی نوعیت کے فیصلے جن پر عمل شروع ہے یا ہوا چاہتے ہے‘ ان پر عمل کی تکمیل کے لیے نگران سیٹ اپ کے اختیارات میں اضافہ کرنے میں بھی شاید کوئی حرج نہیں۔
دوسری جانب مشترکہ مفادات کونسل کا جو اجلاس 25جولائی کو متوقع تھا‘ اب قومی اسمبلی کی تحلیل سے پیشتر اگلے ہفتہ ہونے کا امکان ہے‘ جس میں حتمی فیصلہ لینے کے لیے پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ مردم شماری کے نتائج کی پیشکش کے حوالے سے تین امکانات ہیں ‘یا تو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے دوران چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی جانب سے نشاندہی کی جانے والی سنگین خامیوں کے تناظر میں نتائج کو ختم کر دیا جائے گا ‘یا مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی جائے گی اور پھر اس کی روشنی میں ازسرِ نو حلقہ بندیوں کے نتیجے میں اگلے عام انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے ۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں دیرپا تنازعات کو حل کیا جائے اور تمام متعلقہ پارلیمانی پارٹیز کے لیے قابلِ قبول حل تلاش کیا جائے۔ اگر کسی سطح پر عام انتخابات میں تاخیر کا کوئی تصور موجود ہے تو نئی مردم شماری کے نتائج کی منظوری دی جا سکتی ہے۔اگر مشترکہ مفادات کونسل موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد نئی مردم شماری کی منظوری دے دیتی ہے تو اس کے نتیجے میں انتخابات چھ ماہ تک مؤخر ہو سکتے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کو مردم شماری کے نتائج کے مطابق حلقہ بندی کرنے کے لیے کم از کم چار ماہ درکار ہوں گے۔ شماریات ڈویژن نے 48اضلاع کے منتخب بلاکس میں نئی مردم شماری کے نتائج کی تصدیق کے لیے تمام کام مکمل کر لیا ہے اور گنتی کی گئی آبادی کو دوبارہ جانچنے کے لیے ملک کے منتخب اضلاع میں 2500 بلاکس کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ اس مردم شماری کے نتائج کو مستند بنایا جا سکے۔تاہم اس تازہ ترین مردم شماری کے کچھ نتائج کافی حیران کن ہیں‘ خاص طور پر سندھ کے حوالے سے جہاں دیہی علاقوں میں بھی گنتی کی شکایات سامنے آئی ہیں اور شہری علاقوں‘ خاص طور پر کراچی میں بھی‘ جہاں آبادی کی کم گنتی کی شکایات بہت زیادہ ہیں۔ مردم شماری کے مقررہ شیڈول کی تاریخوں میں توسیع بھی کی گئی اور خصوصی سروے بھی کروائے گئے لیکن ان کے نتائج ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے۔آئندہ انتخابات کے بارے میں حتمی فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کے اس اجلاس کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ اگر نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہوجاتا ہے تو پھر انتخابات فروری 2024ء تک مؤخر ہو سکتے ہیں۔
موجودہ حکومت 12 اگست تک تحلیل ہو جائے گی‘ جس کے بعد نگران حکومت کا تقرر عمل میں آئے گا اور نگران سیٹ اَپ انتخابات کرانے کے بعد رخصت ہو جائے گا اور نئی حکومت پانچ سال کے لیے اقتدار میں آ جائے گی۔ نگران حکومت کا اصل مقصد منتخب حکومت کے آنے تک روزمرہ کے معاملات چلانا ہوتا ہے۔ اُسے پالیسی سازی کے فیصلے کے حوالے سے منتخب حکومت جیسے اختیارات تو حاصل نہیں ہوتے لیکن معیشت کے حوالے سے ملک اس وقت جس غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہے اس کی وجہ سے نگران حکومت کو معمول سے زیادہ بااختیار بنانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے‘ جس کے لیے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں ترمیم کر کے نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی بااختیار بنانے کے لیے 54 ترامیم شامل کر کے ان کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کر لی گئی ہے اور سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی ضابطہ اخلاق بنایا گیا ہے تاکہ الیکشن کی مہم کے دوران بدمزگی پیدا نہ ہو اور سیاسی پارٹیاں اپنی مہم اپنے منشور تک ہی محدود رکھیں۔نگران حکومت کو ملکی معیشت کے لیے ضروری فیصلوں کا اختیار ہو گا تو وہ بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں کے ساتھ معاہدوں پر عملد رآمدکی پابند ہو گی جو اس کے قائم ہونے سے پہلے کئے گئے تھے۔ نگران حکومت الیکشن کمیشن کے آئینی و قانونی معاملات میں مداخلت کی مجاز نہیں ہوگی‘ انتخابی شیڈول جاری کرنا اور اس میں رد و بدل کے اختیارات‘ الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ کی دفعات 57 اور 58 کے مطابق ہی رہیں گے اور نگران وزیراعظم آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت الیکشن شیڈول کے مطابق الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ 230 میں ترامیم کر کے نگران حکومت کو بااختیار بنا دیا ہے اور وہ روزمرہ کے معمولات کے علاوہ بین الاقوامی معاہدات پر عمل درآمد کرے گی۔ اسی تعمیری جذبے کے تحت پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ سید محسن رضا نقوی نے پنجاب کے وہ تمام تعمیراتی پروگرام مکمل کرا دیے ہیں جو گزشتہ دور میں شروع کئے گئے تھے یازیرالتوا تھے۔ نگران وزیراعلیٰ نے پنجاب کے سیلاب زدگان کو ریلیف دینے میں بھی اہم خدمات سرانجام دی ہیں اور محرم الحرام کے جلوسوں کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے بھی دن رات متحرک رہے ہیں۔
قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیج دیا ہے اور صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق اور آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت اس کی منظوری دینے کے مجاز ہیں ۔ توقع کی جا رہی ہے کہ صدرِ مملکت رخصت ہونے والی قومی اسمبلی کے ان فیصلوں کی منظوری دینے میں آئین کے آرٹیکل 48 کی روح کے مطابق فیصلہ کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں