"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات اور نئی حلقہ بندیاں

ایک اور قومی اسمبلی کا پارلیمانی سفر مکمل ہو گیا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف آئین کے آرٹیکل (4)48 کے تحت صدرِ مملکت کو قومی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس بھجوا رہے ہیں۔ صدرِ مملکت سمری موصول ہونے کے بعد 48گھنٹوں میں اس حوالے سے فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ قومی اسمبلی کے بعد سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کر دیا جائے گا‘ دونوں وزرائے اعلیٰ آئین کے آرٹیکل 112کے تحت گورنر صاحبان کو اسمبلیوں کی تحلیل کیلئے ایڈوائس بھجوائیں گے اور آئین کے آرٹیکل 22 اور (A)224 کے تحت آئندہ ایک ہفتے تک نگران سیٹ اَپ مکمل ہو جائے گا اور اقتدار عبوری طور پرنگران حکومتوں کے سپرد کر دیا جائے گا۔ گزشتہ پانچ برسوں کو بعض خوشگوار اور بعض افسوسناک واقعات کی بنا پر ملک کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کسی بھی حکومت کے لیے یہ مختصر ترین عرصہ ہے جہاں ہمیں بے پناہ چیلنجز اور مشکلات کا سامنا تھا اور پچھلی حکومت کا بوجھ بدترین غفلت اور ناکامیوں کی وجہ سے ہم پر پڑا۔ وزیراعظم نے کہا کہ11 اپریل 22ء کو قومی اسمبلی کے دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ساتھیوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور ملک کا وزیراعظم منتخب کروایا۔ انتہائی مشکل حالات میں اتحادی حکومت نے ان مشکلات کا مقابلہ کیا‘ بدترین سیلاب کا مقابلہ کیا جس نے صوبہ سندھ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا‘ اس کو تار تار کردیا گیا۔ گزشتہ حکومت نے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو جس بری طرح سے مجروح کیا‘ اس سے پاکستان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ سائفر کے ڈرامے نے جلتی پر تیل کا کام کیا‘ جس کی وجہ سے امریکہ سے تعلقات بری طرح متاثر ہوئے۔ چین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا جس کی وجہ سے دوستانہ تعلقات متاثر ہوئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں مشکلات کا اندازہ تو تھا لیکن ان کی اتنی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا‘ یوکرین جنگ کی وجہ سے کساد بازاری بڑھی ہوئی تھی اور ہر بار جب پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا تھا تو کابینہ میں بحث ہوتی تھی کہ غریب عوام پر یہ بوجھ کیسے ڈالیں۔ گزشتہ حکومت کے دورمیں گندم کی پیداوار میں کمی ہوئی جس کی وجہ سے اربوں روپے خرچ کرکے باہر سے گندم منگوانا پڑی۔ موجودہ حکومت نے 16 ماہ میں کسی کو گرفتار نہیں کروایا‘ اگر آج ایک پارٹی رہنما کو سزا ملی ہے تو اس میں ہمیں کوئی خوشی نہیں‘ کسی کو اس پر مٹھائی تقسیم نہیں کرنی چاہیے‘ لیکن اس ملک کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوئی جس کی ابتدا 9مئی کو ہوئی جسے 'سیاہ دن‘ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض سے آج (جمعرات کو) ملاقات کرکے نگران وزیراعظم کے نام پر تبادلہ خیال کریں گے جس کے بعد فائنل نام الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا کیونکہ مشاورت کے لیے ابھی تین دن باقی ہیں۔ حکومت باوقار طریقہ سے اقتدار سے سبکدوش ہو گئی ہے۔
اُدھر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال کی سزا ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم کی پانچ سال کے لیے نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے چیئرمین تحریک انصاف کو آئین کے آرٹیکل 63(1) (ایچ) کے تحت نااہل قرار دیا ہے۔ اس نااہلی کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کو این اے45 کرم (1) کی نشست سے بھی بطور امیدوار ڈی نوٹیفائی کردیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے توشہ خانہ کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو تین سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ''وہ قومی خزانے سے حاصل کردہ منافع بخش چیزوں کو ارادتاً چھپاتے ہوئے کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب قرار پائے ہیں‘ انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے دھوکا دہی کی کیونکہ وہ بعد میں غلط ثابت ہوگئیں‘‘۔ اس حوالے سے مزید کہا گیا تھا کہ ''ان کی بددیانتی بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہو چکی ہے‘‘۔
الیکشن کمیشن نے آئین کے جس آرٹیکل 63 (1) (ایچ) کا ذکر کیا ہے‘ اسے اگر الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 232کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے‘ جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جو شخص الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 174 کی خلاف ورزی کرے گا‘ جو کہ کرپٹ پریکٹس سے متعلق ہے‘ وہ پانچ سال کے لیے نااہل قرار پائے گا‘ تو یہ نااہلی قانونی ثابت ہوتی ہے۔ اب جہاں تک عمران خان کی پارٹی چیئرمین شپ کا تعلق ہے تو اس کے لیے الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 205کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کا فروری 2018ء کا اہم ترین فیصلہ بھی موجود ہے جس میں اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے میاں نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے معزول کرتے ہوئے ان کو اس عہدے کیلئے نااہل قرار دیا تھا اور میاں صاحب نے سینیٹ کے لیے جن امیدواروں کو ٹکٹ ایوارڈ کیے تھے‘ وہ بھی غیرقانونی قرار دے دیے گئے تھے جس پر الیکشن کمیشن نے نظریۂ ضرورت کے تحت اُن امیدواروں سے حلف نامہ لیا تھا کہ ان کا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ یہ حلف نامہ ان امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کے ہمراہ الیکشن کمیشن میں اب بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ الیکشن کمیشن‘ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے پیش نظر عمران خان کو پارٹی کی چیئرمین شپ سے معزول کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اگر عمران خان پارٹی کی چیئرمین شپ سے محروم ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن‘ جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 208کے تحت لازمی امر ہے‘ کے ذریعے نیا چیئرمین منتخب کر سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے گزشتہ ڈیڑھ سال سے اسے نوٹس جاری کر رہا ہے‘ اس ضمن میں جاری آخری نوٹس میں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے 15اگست تک کا وقت دیا گیا ہے‘ اس وقت تک پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد نہ ہونے کی صورت میں تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان سے بھی ہاتھ دھو سکتی ہے۔
مشترکہ مفادات کونسل‘ جو ملک کا اہم ترین ادارہ ہے‘ کی سفارشات پر نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان ازسر نو حلقہ بندیاں کرانے کے لیے انتظامی روڈ میپ تیار کر رہے ہیں جس کے تحت مقررہ مدت میں حلقہ بندیاں کرانے کی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ ہمارے ہاں مردم شماری‘ انتخابی فہرستیں اور حلقہ بندیاں ایسے مسائل کی صورت اختیار کر چکی ہیں جن سے انتخابی ڈھانچہ شدید متاثر ہوتا ہے جبکہ بھارت میں مردم شماری کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حلقہ بندیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس سارے عمل سے انڈین الیکشن کمیشن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ حلقہ بندیاں کرانے کے لیے وہاں علیحدہ کمیشن موجود ہے جو پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے تجربہ کار افراد پر مشتمل ہے۔ اسی طرح مردم شماری کا معاملہ الگ طریقے سے انجام پاتا ہے جبکہ انتخابی فہرستیں مرتب کرنے کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ کی ہی ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر دفتر میں ایک الگ ڈیسک قائم ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں انتخابی فہرستیں الیکشن کمیشن بناتا ہے جن پر انتخابات کے روز تک اعتراضات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں