"KDC" (space) message & send to 7575

نئی حلقہ بندیوں پر کام شروع

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی ہے جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی از خود تحلیل ہو چکی ہے۔ صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل 58کے تحت تحلیل کی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 58کے مطابق اگر صدر وزیراعظم کی سفارش کے بعد 48گھنٹوں کے اندر اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہو جاتی۔ وزیراعظم نے اسمبلی کی تحلیل کی سمری میں صدرِ مملکت سے عبوری حکومت کی تشکیل کی درخواست بھی کی ہے۔ چھ اگست کو حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اسمبلیاں اپنی مقررہ مدت سے تین روز قبل نو اگست کو تحلیل کر دی جائیں گی جس کے بعد انتخابات 90 روز کے اندر کرائے جائیں گے۔ موجودہ اسمبلی کی مدت 12 اگست کو پوری ہو رہی تھی تاہم مقررہ وقت سے قبل اسمبلی تحلیل کیے جانے کے سبب اب آئین کے تحت آئندہ 90 دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرانا ہو گا۔ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کر لیتی تو الیکشن کمیشن کو 60دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرانا پڑتا۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 224 (اے) کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔
صدرِ مملکت کو اسمبلی کی تحلیل کی سمری بھجوانے سے قبل یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ صدرِ مملکت آئین کے آرٹیکل (4)48 کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کریں گے جس میں یہ بھی درج ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ صدرِ مملکت نوے روز میں انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنے کی اتھارٹی بھی رکھتے ہیں۔ صدرِ مملکت نے ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر اور وزیراعظم کی قانونی ٹیم نے آئین کے آرٹیکل (1)58 کا سہارا لے کرالیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا تنازع ختم کر دیا ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل (4)48کے ساتھ ہی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 57 میں حال ہی میں پارلیمنٹ نے ترمیم کر کے صدر کا یہ استحقاق ختم کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تفویض کر دیا تھا۔لیکن صدرِ مملکت نے آئینی تنازع کھڑا نہیں ہونے دیا اور آرٹیکل (1)58کا ہی سہارا لیا۔ صدرِ مملکت مگر آئین کے آرٹیکل (4)48 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صدارتی لیٹر جاری کرنے کے مجاز ہیں لیکن صدرِ مملکت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آئین کے آرٹیکل (5)51 کے تحت مردم شماری کے آخری نتائج کے نوٹیفیکیشن کے بعد الیکشن کمیشن نے ازسرنو حلقہ بندیاں کرنی ہیں۔
قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کی تقسیم کے لیے الیکشن کمیشن نے طے شدہ رولز کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 17 تا22 کے مطابق اپنے قانونی فرائض کی ادائیگی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا ہے۔ 2023ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی کل آبادی‘جو کہ تقریباً 12کروڑ 75لاکھ سے زائد ہے‘ کو پنجاب اسمبلی کی کل 297جنرل نشستوں اور قومی اسمبلی کی پنجاب کے لیے مختص 141جنرل نشستوں پر تقسیم کیا گیا ہے۔ پنجاب کی نشستوں کے لیے 0.50 پوائنٹس کو مکمل نشست تصور کیا گیا ہے۔ اس طرح پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی295 نشستوں کی تقسیم مکمل ہو گئی ہے جبکہ باقی دو نشستوں کے لیے کسی ضلع کے پاس 0.50 پوائنٹس نہیں ہیں‘ اس لیے یہ نشستیں 0.49 پوائنٹس رکھنے والے قصور اور خوشاب کے حصہ میں آئیں گی۔ قومی اسمبلی کے لیے بھی 0.50 پوائنٹس کو مکمل نشست تصور کیا گیا‘ اس تناسب سے پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 143بنتی ہے لیکن نشستوں میں اضافے کیلئے آئینی ترمیم راہ میں حائل ہے‘ اس لیے آخری نمبر پر 0.52 پوائنٹس رکھنے والے جہلم اور 0.51 پوائنٹس رکھنے والے قصور کے حصہ میں قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست کم آئے گی اور اس طرح پنجاب کے حصے میں قومی اسمبلی کی کل141نشستیں آئیں گی۔ الیکشن کمیشن نے دیگر صوبوں کے لیے بھی یہی فارمولا اختیار کرنا ہے۔ آئندہ انتخابات کے لیے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نشستوں کو مختص کرنے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ازسرنو حلقہ بندیوں کے لیے مختلف کمیٹیاں مقرر کر دی ہیں۔ جو حلقہ بندیوں کے لیے مسلمہ اصولوں کو مدنظر رکھیں گے۔
ادھر گزشتہ روز نگران وزیراعظم کے نام پر مشاورت کے لیے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اور وزیر اعظم شہباز شریف کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوگئی۔وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کہا کہ میں نے اور وزیراعظم نے مشاورت کے دوران یہ طے کیا ہے کہ جب تک کوئی نام فائنل نہیں ہوجاتا اس پر بات نہیں کریں گے کہ اس نام کا کس شعبے سے تعلق ہے۔خیال رہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان یہ ملاقات آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت ہوئی ہے۔ملاقات کے دوران نگران وزیراعظم کے لیے دونوں جانب سے تین‘ تین ناموں پر تبادلہ خیال کیا گیا‘ تاہم حکومت نگران وزیراعظم کا نام حتمی طور پر طے کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ آئین کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان کے پاس نگران وزیراعظم کا نام حتمی طور پر طے کرنے کے لیے تین روز کا وقت ہے۔نگران وزیراعظم کے لیے کسی نام پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوایا جائے گا‘ اگر کمیٹی کوئی فیصلہ کرنے میں ناکام رہی تو الیکشن کمیشن کے ساتھ شیئر کیے گئے مجوزہ ناموں کی فہرست میں سے نگران وزیراعظم کا انتخاب کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس دو روز کا وقت ہوگا۔نگران وزیراعظم کے تقرر تک وزیراعظم شہباز شریف بطور وزیر اعظم فرائض سرانجام دیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 94 کے مطابق وزیر اعظم کو صدرِ مملکت اس وقت تک عہدے پر فائز رہنے کو کہہ سکتے ہیں جب تک ان کہ جگہ نگران وزیر اعظم نہیں آجاتا۔
نگران وزیراعظم کسی ایسے شخص کو مقرر کیا جانا چاہیے جو آئندہ انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدار انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی بھرپورمعاونت کرسکے۔ افسر شاہی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو‘ امن و امان کی صورت حال برقرار رکھ سکے۔ جس کے پاس ملک کو درپیش معاشی مسائل کا حل موجود ہو۔ کمزور انتظامی صلاحیتوں کے حامل نگران وزیراعظم کو انتخابات میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جب سیاسی جماعتوں کے مابین انتخابی جنگ شروع ہو جائے تو پریشر گروپ نگران حکومتوں کے لیے دردِ سر بن جاتے ہیں۔
دوسری طرف یہ امر خوش آئند ہے کہ بے تحاشا مشکلات کے باوجود تیسری قومی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کر لی ہے۔ گوکہ ملکی تاریخ میں اب تک کوئی ایک وزیراعظم بھی پانچ سال کیلئے برسراقتدار نہیں رہ سکا ہے اور حالیہ قومی اسمبلی کی مدت بھی دو وزرائے اعظم نے پوری کی۔ دونوں وزرائے اعظم کو بے پناہ معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں مہنگائی میں اضافہ ہوا لیکن پی ڈی ایم کی حکومت میں تو یہ دو چند ہو گئی۔ 11اپریل 2022ء سے نو اگست 2023ء کا عرصہ پارلیمنٹ کے لیے مشکل ترین تھا لیکن پی ڈی ایم حکومت نے ان مشکلات پر قابو پانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومت ان مسائل کو قابو میں رکھ سکتی ہے یا نئی حکومت کیلئے مسائل میں اضافہ کرکے جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں