"KDC" (space) message & send to 7575

صدرِ مملکت الیکشن کی تاریخ متعین کرنے کے مجاز نہیں؟

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو ایک خط کے ذریعے عام انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنے کے لیے مشاورت کی دعوت دی ہے۔ انتخابی تاریخ کے تعین سے متعلق ضروری امور پر گفت و شنید کے لیے صدرِ مملکت کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کو ایوانِ صدر میں مدعو کیا گیا ہے۔ ٹویٹر پر موجود خط کی کاپی کے مطابق صدرِ مملکت نے خط میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی 9اگست 2023ء کو تحلیل کردی گئی تھی‘ اس لیے اب آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 48کی ذیلی شق 5 کے مطابق صدرِ مملکت انتخابات کی تاریخ دینے کے پابند ہیں جو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کے لیے 90روز سے زیادہ نہ ہو۔ لہٰذا مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے چیف الیکشن کمیشن کو صدرِ مملکت سے آج (بدھ)یا کل (جمعرات)ملاقات کی دعوت دی جاتی ہے۔اب دیکھا یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر صدرِ مملکت کی اس دعوت کو قبول کرتے ہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ 9 اگست کو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سابق وزیراعظم شہباز شریف کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کردی تھی۔ صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی وزیراعظم کی تجویز پر آئین کے آرٹیکل 58کے تحت کی تحلیل کی تھی۔ آئین کی اس شق کے مطابق اگر صدر وزیراعظم کی سفارش کے بعد 48گھنٹوں کے اندر اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہو جاتی لیکن بہرحال صدرِ مملکت نے 48 گھنٹے سے قبل ہی اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط کر دیے تھے۔ وزیراعظم نے اسمبلی کی تحلیل کی سمری میں صدرِ مملکت سے عبوری حکومت کی تشکیل کی درخواست بھی کی تھی لیکن سابق وزیراعظم شہباز شریف اور سابق قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف رہنے والے راجہ ریاض‘ دونوں نگران وزیراعظم کے نام پر متفق ہو گئے‘ اس لیے یہ معاملہ صدرِ مملکت تک پہنچ ہی نہیں پایا۔ تحلیل ہونے والی اسمبلی کی مدت 12 اگست کو پوری ہو رہی تھی لیکن چونکہ یہ نو اگست کو‘ مقررہ مدت سے تین روز قبل تحلیل کر دی گئی تھی‘ اور آئین کے مطابق اگر اسمبلی مقررہ مدت سے قبل تحلیل ہو جائے تو الیکشن کمیشن 90روز میں الیکشن کرانے کا پابند ہے۔ صدرِ مملکت نے اپنے خط میں اسی جانب اشارہ کیا ہے۔
صدرِ مملکت کی طرف سے آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے والے ہیں جس سے ایک اور آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان صدارتی فرمان کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ57کے تحت مسترد اور نظر انداز کرنے کا استحقاق رکھتا ہے کیونکہ انتخابی اصلاحات کے بل میں ترمیم کے ذریعے صدر انتخابات کی تاریخ دینے کے مجاز نہیں ہیں۔ بادی النظر میں ملک میں عام انتخابات مئی2024ء سے قبل ممکن نہیں۔ 2023ء کی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں چار ماہ میں مکمل ہوں گی جس کے لیے الیکشن کمیشن 14دسمبر کی تاریخ متعین کر چکا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابی فہرستوں پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی۔ انتخابی حلقہ بندیوں کے بعد انتخابی فہرستوں کی تیاری لازمی عمل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پھر نظر ثانی شدہ انتخابی فہرستوں پر اعتراضات بھی ہوں گے اور پھر ووٹرز فہرستوں کی طباعت کا عمل مکمل ہونے میں بھی مزید تین ماہ درکار ہوں گے یعنی یہ دونوں عمل مارچ 2023ء تک مکمل ہوں گے‘ جس کے بعد انتخابی شیڈول کے لیے 48سے54روز مزید درکار ہوں گے جو الیکشن ایکٹ کی دفعہ57کے تحت قانونی طور پر لازمی ہے۔ اس طرح آئندہ انتخابات کا انعقاد مئی2024ء سے قبل منعقد ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
اُدھر صدر عارف علوی کی طرف سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلوں کی منظوری دیے جانے کی تردید کے بعد سے ملک ایک آئینی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ مذکورہ دونوں بلوں کو رواں ماہ پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا اور صدر کی جانب سے ان کی منظوری تصور کیے جانے کے بعد یہ نافذ بھی ہو چکے ہیں‘ لیکن ان کے نفاذ کے نوٹیفکیشن کے دو روز بعد صدرِ مملکت کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹ سے ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ گوکہ تقریباً دو روز کی تاخیر سے اور سوشل میڈیا کے ذریعے کی جانے والی تردید ناقابلِ فہم ہے اس کے باوجود اس تردید نے اس قانون سازی پر سوال اٹھا دیا ہے۔ اس پورے واقعے نے ملک میں موجود سیاسی افراتفری کو مزید بڑھاوا بھی دیا ہے۔ صدر صاحب کی طرف سے بیوروکریسی پر خلافِ ضابطہ کام کرنے کے الزامات نے بھی اس معاملے کو پیچیدہ بنایا ہے کیونکہ اس واقعہ کے بعد بیوروکریٹس اب ایوانِ صدر میں تعیناتی سے ہچکچاتے نظر آ رہے ہیں۔صدرِ مملکت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے معاملے پر اپنے پرنسپل سیکرٹری وقار احمد کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کو واپس کردیں تھیں اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سید توقیر حسین شاہ کو خط لکھ کرمطالبہ کیا تھا کہ حمیرا احمد کو پرنسپل سیکرٹری تعینات کیا جائے‘ تاہم حمیرا احمد نے صدرِ پاکستان کی پرنسپل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دینے سے انکار کر دیا ہے۔
سبکدوش پرنسپل سیکرٹری وقار احمد نے صدرِ مملکت عارف علوی کے نام خط میں اس معاملے میں اپنی پوزیشن واضح کر دی تھی۔ صدر کے نام خط میں انہوں نے لکھا کہ نہ میں نے بلز کے معاملے میں تاخیر کی‘ نہ بے قاعدگی‘ نہ صرفِ نظر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ فائلز اب بھی صدارتی چیمبر میں موجود ہیں‘ سپریم کورٹ آف پاکستان نے طلب کیا تو ریکارڈ کے ساتھ جا کر حقائق بتائوں گا ۔صدر کا سیکرٹری کی خدمات واپس کرنے کا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں۔ مزید یہ کہ صدر نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر کوئی تحریری فیصلہ جاری نہیں کیا۔ خط میں مزید کہا گیا کہ تاثر دیا گیا کہ سیکرٹری مذکورہ بلوں سے متعلق کسی بے ضابطگی کا ذمہ دار ہے جبکہ صدرِ مملکت نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی نہ منظوری دی نہ تحریری طور پر واپس پارلیمنٹ بھیجنے کو کہا۔ وقار احمد نے اپنے خط میں یہ بھی کہا کہ صدر سے درخواست کرتا ہوں کہ ایف آئی اے یا کسی بھی ایجنسی سے تحقیقات کروا لیں‘ انکوائری کروا کر اگر کسی نے کوتاہی کی ہے تو ذمہ داری ڈالی جائے۔
صدرِ پاکستان کو آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل دو جبکہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ بل آٹھ اگست کو بھجوایا گیا تھا۔صدرِ مملکت نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے معاملے پر اعتراض 10 دن کی آئینی مدت کے بعد کیا۔ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق کوئی بھی بل منظوری کیلئے صدر پاکستان کو بھیجا جاتا ہے تو صدر کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں‘ صدر بل کی منظوری دیں یا اعتراضات کیساتھ بل واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیں‘ آئین کا آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق صدر کے واپس بھجوائے گئے بل کو پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے منظور کرانا لازم ہوتا ہے‘ جوائنٹ سیشن سے منظوری کے بعد بل دوبارہ صدر مملکت کو بھجوایا جاتا ہے‘ آئین کی اسی شق کے تحت صدر 10 دن میں بل کی منظوری نہ دیں تو بل ایکٹ کی صورت میں لاگو ہو جاتا ہے۔ زیر بحث آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلوں کو پارلیمنٹ نے صدر مملکت کو بھیجا مگر مبینہ طور پر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ صدر نے ترمیمی بلوں کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کے دو روز بعد ٹویٹ کیا کہ انہوں نے تو ترمیمی بلوں کی منظوری نہیں دی جبکہ آئین کے آرٹیکل75کے مطابق اس حوالے سے صدر کو تحریری ہدایات دینی چاہئے تھی‘ٹویٹ نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن اندرونی اطلاعات کے مطابق اس سارے عمل پر پُراسراریت کی دھند چھائی ہوئی ہے۔ ان ترمیمی بلوں کو متنازع بنانے کیلئے صدرِ پاکستان کے اعلیٰ آئینی منصب کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں