"KDC" (space) message & send to 7575

صدرِ مملکت سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کیلئے کوشاں

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے ایوانِ صدر میں ملاقات کے حوالے سے ایک مراسلہ ارسال کیا تھا، جس کے جواب میں چیف الیکشن کمشنر نے ملاقات سے انکار کرتے ہوئے صدر کے نام جوابی خط میں لکھا کہ اس ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ انتخابی قوانین میں تبدیلی کے بعد عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہے۔ الیکشن کمیشن کے صدر کو لکھے گئے جوابی خط میں مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں 26 جون کو ترمیم کی گئی‘ جس سے قبل صدر الیکشن کی تاریخ کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت کرتا تھا‘ سیکشن 57 میں ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حاصل ہو گیا ہے۔اس جوابی خط پر صدر علوی نے وزارتِ قانون سے رائے طلب کی ہے۔ وزارتِ قانون و انصاف کی اعلیٰ سطحی ٹیم صدرِ مملکت کے خط کے حوالے سے سوچ بچار کر رہی ہے اور اس کے بعد ہی وہ کسی منطقی نتیجے پر پہنچے گی۔ نگران سیٹ اَپ میں بیورو کریسی اور اعلیٰ عہدیداران خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کوئی کارگر فارمولا یا مضبوط موقف دینے سے گریز کرتے ہیں۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان اس وقت سیاسی طور پر دوبارہ 1990ء کی دہائی میں جا پہنچا ہے جب ریاست کے مختلف اداروں اور حکومتی ایوانوں میں باہمی چپقلش کا ماحول تھا۔ اِس وقت بھی حکومت اور ایوانِ صدر میں ایک تنائو نظر آ رہا ہے۔ ملک میں جاری سیاسی انتشار، معیشت کی تباہی، ڈالر کی اُڑان اور شدید مہنگائی کے باوجود حکومتی سطح پر جامع حکمت عملی کی طرف دھیان نہیں دیا جا رہا۔ صدرِ مملکت اس وقت ماہرین کی اپنی ٹیم کے ہمراہ وزارتِ قانون و انصاف کے جواب کے منتظر ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی موقف بھی ویسا ہی ہو گا‘ جس کا اظہار اس سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے مراسلے میں کر چکا ہے۔ اس حوالے سے تجزیہ کار اور میڈیا بھی منقسم نظر آ رہا ہے جبکہ سفارتی حلقوں میں بھی دونوں اطراف کے خطوط کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 9 ستمبر 2018ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا اور آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت وہ اُس وقت تک صدر رہیں گے جب تک نئے صدر کا انتخاب عمل میں نہیں آ جاتا۔ نئے صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج مکمل ہونے یعنی چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد ہی عمل میں آ سکتا ہے لہٰذا ابھی صدرِ مملکت کی پوزیشن مستحکم ہے اور وہ آئینی جنگ لڑنے کے لیے پوری تیاری کر رہے ہیں۔ چونکہ وہ سپریم کمانڈر بھی ہیں لہٰذا مقتدر حلقوں میں بھی صدرِ مملکت کی آئندہ کی حکمت عملی کا گہری نظر سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
صدرِ مملکت وزارتِ قانون و انصاف کے جواب کے بعد آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ آئین کے آرٹیکل 48(5)، 58(1) اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رائے طلب کی جائے گی۔ اس پیش رفت کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک اہم فیصلے‘ جس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نظرثانی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی سرزنش کی اور آئین کے آرٹیکل 224کو مدنظر رکھتے ہوئے آرٹیکل 254 کو غیر فعال کر دیا‘ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ صدرِ مملکت اپنے ریفرنس میں آئین کے آرٹیکل 224 کی بنیاد پر آئین کے آرٹیکل 48(5) کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ سے فوری رائے حاصل کریں گے۔ امید ہے کہ وزارتِ قانون کے جواب کے بعد رواں ہفتے ہی یہ ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کر دیا جائے گا اور یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی سپریم کورٹ کے موجودہ سیٹ اَپ میں‘ یہ فیصلہ ستمبر کے پہلے عشرے میں آ جائے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال 16 ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 17 ستمبر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ ان کا سیاسی پس منظر تحریک پاکستان اور قائداعظم کے ساتھ منسلک ہے‘ لہٰذا وہ آئین پاکستان کے ایک بڑے محافظ ثابت ہوں گے۔ زمانہ طالب علمی میں‘ 1970ء تک میری ان کے والد قاضی محمد عیسیٰ مرحوم سے ملاقاتیں رہی ہیں۔ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 48(5) کے تحت صدرِ مملکت کے اختیار کو الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 57 پر فوقیت دیتے ہوئے الیکشن کے لیے تاریخ دینے کے صدر کے اختیار کو تسلیم کیا تو صدرِ مملکت کی کوشش ہو گی کہ جلد از جلد الیکشن کرا دیے جائیں۔ ممکن ہے کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فوری طور پر الیکشن شیڈول جاری کرنے کا کہتے ہوئے نومبر 2023ء ہی کی کسی تاریخ کو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیں۔ ایسی صورت میں نئی حلقہ بندیوں اور نئی ووٹر لسٹوں کا معاملہ عجلت کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابی حلقہ بندیوں کو 14 دسمبر سے 14 نومبر پر لانے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے جبکہ الیکشن کمیشن 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے ووٹرز کو بھی انتخابی فہرستوں شامل کرنے کے لیے نادرا کے ساتھ مشاورت کر رہا ہے اور بیک وقت حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی حتمی لسٹوں پر کام ہو رہا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے 5 اگست کے اجلاس میں پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں اوروزیراعلیٰ سندھ سمیت کسی نے بھی نشان دہی نہیں کی کہ مردم شماری کے نتائج کا نوٹیفکیشن جاری ہونے سے الیکشن پانچ ماہ کے لیے مؤخر ہو سکتے ہیں، اب جبکہ آئین کے آرٹیکل 51(5) کے تحت الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کرا رہا ہے تو پی ڈی ایم جماعتوں سمیت بیشتر سیاسی جماعتوں نے 90 روز میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی اور سپریم کورٹ بار نئی مردم شماری کی منظوری کے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر چکی ہیں۔اگر الیکشن نومبر میں کرانے کا اعلان ہوتا ہے تو انتخابی سیاسی انتشار کی روک تھام کے لیے بیورو کریسی سخت امتحان سے گزرے گی جبکہ الیکشن کمیشن کو بھی کم سے کم وقت میں اپنی تیاریوں کو مکمل کرنا ہو گا۔ الیکشن کمیشن کو ازسر نو حلقہ بندیوں کو مرتب کرنے اور انتخابی فہرستوں کو حتمی شکل دینے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب متوقع انتخابی امیدواروں نے بھی ان دونوں نتائج کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ امید ہے کہ الیکشن کمیشن ان دونوں اہم ترین منصوبوں سے سرخرو ہو کر نکلے گا۔
اس وقت ملک میں انتخابی سرگرمیوں کے حوالے سے عوام میں اضطراب پایا جا تا ہے۔ بڑی قومی سیاسی جماعتوں نے انٹرا پارٹی الیکشن ایسے انداز میں کرائے ہیں کہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو اعلیٰ عہدوں تک رسائی ہی حاصل نہیں ہو سکی۔ سیاسی جماعتوں کا انتخابی منشور بھی تضادات کا شکار نظر آ رہا ہے۔ انہی منصوبوں کو متبادل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جنہوں نے پاکستان کو معاشی طور پر اس حال میں پہنچایا ہے۔ ابتر حالات کے باوجود سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کے لیے عجلت دکھاتی نظر آرہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں اندرونی خلفشار کے ساتھ ساتھ بیرونی پریشانیوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ڈالروں کا اخراج دسمبر 2023ء کے اواخر تک ڈالروں کی آمد سے زیادہ ہو جائے گا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے کا دباؤ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مزید بڑھنے والا ہے، جاری کھاتے کا خسارہ ایک ارب ڈالر ہو گیا ہے اور نگران وفاقی حکومت کا دائرۂ کار محدود ہے، ایسی صورت میں بیرونی ممالک سے بھی کسی قسم کا ریلیف نہیں مل رہا اور سرمایہ کار اور دوست ممالک کی نگاہیں بھی آئندہ انتخابات اور نئی ملکی قیادت پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر کسی بیرونی اشارے پر آئندہ عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا تو امیدواروں کے انتخابی اخراجات سمیت انتخابات پر خرچ ہونے والے لگ بھگ ستر ارب روپے ڈوب جائیں گے۔ اب جبکہ بھارت نے چاند کے جنوبی قطب پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا ہے‘ ہمارے یہاں بے چینی بڑھی ہے۔ خلائی میدان میں بھارت کے بڑھتے قدم ملک کے سکیورٹی چیلنجز میں اضافہ کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں