"KDC" (space) message & send to 7575

مہنگائی کے خلاف ٹھوس اقدامات کی ضرورت

پاکستان بزنس کونسل کی رپورٹ کے مطابق ملک میں نو ہزار ارب روپے بینکوں سے باہرمحفوظ کئے گئے ہیں‘ جن کے ذریعے ڈالر اور سونے پر سٹے بازی ہو رہی ہے۔ حالات کی خرابی کے دیگر اسباب میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے اپنے اہل خانہ کو بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے نیز درآمدات پر عائد پابندی کو قبل از وقت ختم کرنے کے اثرات بھی شامل ہیں۔ ان حالات میں بھارت کی جانب سے نان باسمتی چاول کی برآمد پر پابندی کو پاکستانی معیشت کی بہتری کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھنا چاہیے‘ کیونکہ صرف چاول برآمد کر کے تین ارب ڈالرز کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ ملک میں غیر معمولی مہنگائی کا ایک بڑا سبب مفاد پرست عناصر کی جانب سے ڈالر‘ سونے اور اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی اور سٹے سے بڑا منافع کمانے کا لالچ بھی ہے۔ جس سے مہنگائی مصنوعی طور پر بڑھ رہی ہے اور اس کی ایک مثال چینی کی قیمتوں کے معاملے میں سامنے آئی ہے۔
ملک میں مقامی ضرورت سے کہیں زیادہ چینی موجود ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس وقت ملک میں 23لاکھ ٹن چینی کے ذخائر موجود ہیں جبکہ کھپت ماہانہ صرف پانچ لاکھ ٹن کی ہے۔ جبکہ کرشنگ سیزن جو کہ نومبر کے وسط سے شروع ہو جاتا ہے‘کے شروع ہوتے ہی چینی کے ذخائر میں دس لاکھ ٹن کا اضافہ ہو جائے گا۔ ان حالات میں چینی کی قلت محض پروپیگنڈا اور قلت کا خوف پیدا کر کے دوگنی چوگنی قیمت پر ذخیرہ شدہ چینی کی فروخت سے بے بہا دولت کمانا نہیں تو اور کیا ہے؟ لہٰذا نگران حکومت کو چینی کے سٹے اور ذخیرہ اندوزی روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کی معیشت کے لیے ہر طرح کی سمگلنگ سوہانِ روح ہے۔ باہر سے سمگل شدہ مال لا کر حکومت کو محصولات سے محروم کیا جاتا ہے اور ملک سے اشیائے ضروریہ ناجائز طریقوں سے باہر بھیج کر ملک میں ان اشیا کی قلت پیدا کی جاتی ہے۔ گزشتہ روز کے اخبار میں یہ خبر تھی کہ سمگل شدہ تیل کی قیمتوں کے بڑے فرق کی وجہ سے ڈیزل کی سمگلنگ کا حجم تقریباً 4000 ٹن یومیہ ہے‘ جس کے باعث ماہانہ تقریباً 120,000 ٹن یا 143 ملین لٹر ماہانہ فروخت کا نقصان ہورہا ہے اور پٹرولیم لیوی اور کسٹم ڈیوٹی کی وجہ سے پہلے سے سکڑے ہوئے قومی خزانے کو 10.2 ارب روپے ماہانہ کا غیر معمولی نقصان ہوتا ہے۔ سمگل شدہ سستا تیل صارفین کے لیے تو کسی طرح سے فائدہ مند نہیں کیونکہ انہیں تو ملک میں رائج الوقت قیمت ہی پر ڈیزل اور پٹرول ملتا ہے‘ البتہ سمگلرز کی ضرور چاندی ہو رہی ہے اور تیل کی ملکی صنعت کا بھٹہ بیٹھ رہا ہے جبکہ حکومت کو ماہانہ اربوں کا خسارہ ہو رہا ہے۔اس طرح گندم‘ آٹا‘چینی‘ یوریا‘ ڈالر اور ناجانے کیا کیا ملک سے باہر بھیج کر پیسے کھرے کئے جارہے ہیں اور ملک ہمہ وقت اشیا کی قلت سے دوچار رہتا ہے۔ اگلے روز نگران وزیر اعظم نے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا اور نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے سمگلنگ کی روک تھام یقینی بنانے کے لیے بارڈر پر جوائنٹ پٹرولنگ پر عملد ر آمد یقینی بنانے کا حکم دیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس سے کچھ اثر ہوتا ہے یا سمگلنگ بدستور جاری رہتی ہے۔ یہ طے ہے کہ سمگلنگ رکنے سے ملک میں اشیائے ضروریہ کی دستیابی میں بہتری آئے گی اور قیمتیں کم ہو جائیں گی۔
اب بات کرتے ہیں بجلی کے بلوں پر عوامی تشویش کی اور ان اسباب کی جو بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو بجلی کی مفت فراہمی پر عوام میں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں نے عوامی غصہ کو عروج پر پہنچا دیا ہے اور اس کے گہرے اثرات عام انتخابات کے موقع پر بھی سامنے آئیں گے۔ مگر وفاقی نگران حکومت کا مؤقف بڑا دلچسپ ہے کہ احتجاج اور بجلی کے بل جلانے سے بجلی سستی نہیں ہو گی۔ اصولی طور پر نگران حکومت کو اس قسم کے تلخ بیانات سے گریز کرنا چاہیے اور اپنا مؤقف اقتصادی صورتحال تک محدود رکھنا چاہیے۔ نگران حکومت کو لاکھوں سرکاری ملازمین‘ جو مفت بجلی استعمال کر رہے ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق پانچ سو ارب روپے سے زائد کی سالانہ مفت بجلی استعمال کی جارہی ہے‘ اس کی حقیقت جاننے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔ ان ملازمین سے فری بجلی کی سہولت واپس لے کر بجلی کی مد میں عوام کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے یقینی ملک کی نوجوان نسل‘ جو کہ آبادی کی اکثریت پر مشتمل ہے‘ کیلئے بطورِ خاص تشویش کا باعث ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان نے اگلے روز اپنے ریمارکس میں بجا فرمایا کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑنے پر تلی ہوئی ہے۔ان نوجوانوں کو کیسے یقین دلانا ہے کہ اپنے ملک میں ان کا مستقبل تاریک نہیں؟ انہیں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع میسرآئیں گے۔ یہ صرف طفل تسلیوں سے ممکن نہیں۔ کچھ عملی اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ملک میں طبقاتی تقسیم گہری ہو چکی ہے اور اس کے خطرناک رجحانات عام انتخابات میں دیکھنے میں آئیں گے۔اس طرح خدشہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مرتب کردہ ضابطہ اخلاق سے ملک میں پرتشدد ہنگاموں کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگا اور مارچ 1977ء کی طرح بے چینی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔چونکہ نگران حکومتیں بیورو کریسی کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں؛چنانچہ اس انتشار کی فضا میں پولنگ سٹیشنوں پر ہنگامہ آرائی کا سلسلہ شروع ہوا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان اگرچہ آرمی‘ پریس‘ رینجرز اور دیگر سکیورٹی اداروں کی معاونت سے کھڑا رہے گا‘لیکن عوام کے ردعمل پر کنٹرول کرنا مشکل ہوگا۔ عوام کی اُبھرتی تشویش کا ابھی تک حقیقی معنوں میں تجزیہ نہیں کیا گیا۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مہنگائی سے عوام میں بیزاری اور ڈپریشن کی شدید کیفیت پائی جاتی ہے کیونکہ پٹرول 306روپے‘ ڈیزل 312روپے‘ چینی 190 روپے آٹا 180 روپے گھی 680 روپے‘ روٹی 30 روپے‘ بجلی 65 روپے‘ دالیں245 روپے‘ ڈالر336روپے اور دودھ 240 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے عوام کو کسی قدر ریلیف مل سکے۔ جب تنخواہ دار طبقے کی مجبوریوں کا خیال نہیں رکھا جاتا اور انہیں نفسیاتی طور پر یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ حکومت کو ان کی تنخواہ سے منہا کئے گئے انکم ٹیکس کی رقم کے علاوہ کسی بات سے سروکار نہیں تو کام سے ان کا لگاؤ ختم ہو جاتا ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونا ملازمین کی بددلی کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں تو سالانہ اضافے کے باوجود مہنگائی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے معاملات ِ زندگی چلانا ناممکن ہو چکا ہے۔ تنخواہ پہلی چیز ہوتی ہے جس کی وجہ سے کوئی اپنے کام سے خوش یا ناخوش ہوتا ہے۔ ملازمین جہاں ہیں وہیں پر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر خو ش دلی سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے ملازمین کی شرح 59 فیصد ہے جن کا کام میں دل نہیں لگتا اور وہ کم کام کرتے بھی ہیں اور نہیں بھی کرتے۔ حکومت اور پرائیویٹ اداروں کو ملازمین کی نفسیاتی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ان کو ریلیف دینا چاہیے۔
کالم کے آخر میں ایوان صدر میں جمعہ کو ہونے والی ملاقاتوں اور اس حوالے سے قیاس آرائیوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ خبروں کے مطابق صدرِ مملکت کی دواہم شخصیات سے ملاقات ہوئی‘ مگر اس دوران کیا طے ہوا‘ اس حوالے سے ایوانِ صدر یا کسی دوسرے ذریعے سے کوئی بیان یا اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا‘تاہم حسب معمول سوشل میڈیا پر قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر آئندہ 72 گھنٹے میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں