"KDC" (space) message & send to 7575

نئے چیف جسٹس عدلیہ کا وقار بلند کریں گے

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے کی سبکدوشی کے موقع پر اعتراف کیا ہے کہ ان کی حالت اب ڈوبتے سورج جیسی ہے۔ جسٹس (ر) عمر عطا بندیال انتخابی سیاست میں اُلجھ گئے تھے اور ان کی بڑی ناکامی یہ رہی کہ مرحوم جسٹس (ر) رفیق تارڑ کی طرح شاید وہ بھی صدر مملکت بننے کے خواہش مند تھے‘ اور جس طرح رفیق تارڑ کا جھکاؤ سیاست کی طرف تھا عمر عطا بندیال بھی اسی راہ پر چل پڑے اور اپنے دور میں انہوں نے بعض ایسے فیصلے بھی دیے جو متنازع قرار پائے اور آئین کے بعض آرٹیکلز کی ایسی تشریح کی جس کی وجہ سے عدالت ِ عظمیٰ منقسم ہو کر رہ گئی۔ بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے آخری فیصلے میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے دو کے مقابلے میں ایک کی اکثریت سے قومی احتساب بیورو میں ترامیم کے خلاف دائر کی گئی آئینی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے دس میں سے نو ترامیم کو منسوخ قرار دے دیا اور پچاس کروڑ روپے کی حد سے کم بدعنوانی کے مقدمات میں قومی احتساب بیورو کا دائرہ اختیار ختم کرنے کی شق کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلہ کے نتیجہ میں کرپشن کے598 مقدمات ایک ہفتے کے اندر احتساب عدالتوں میں بحال ہو جائیں گے‘ ان میں سے 35 مقدمات ایسے ہیں جس میں پاکستان کے صف ِ اول کے سیاستدان مطلوب ہیں۔ یہ مقدمات پھر سے شروع ہو جائیں گے‘ جن میں 150 ارب روپے کی کرپشن ریکارڈ کے مطابق بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح 755 مقدمات کی انکوائریاں اور 292 مقدمات کی تفتیش بھی بحال ہو جائے گی۔ قومی احتساب بیورو نے وضاحت کی ہے کہ سابق حکومت کی جانب سے نیب قوانین میں مذکورہ ترامیم کے بعد جن مقدمات کو بند کیا گیا تھا یا جن کا نیب عدالتیں فیصلہ کر چکی ہیں انہیں دوبارہ نہیں کھولا جائے گا‘ مزید یہ کہ قومی احتساب بیورو انتظامی طور پر مکمل نہیں کیونکہ ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کے عہدے خالی ہیں اور جب تک ان پوسٹوں پر تقرریاں نہیں ہو تیں قومی احتساب بیورو مقدمات پر کوئی کارروائی نہیں کر سکے گا۔ ماہرین قانون کی رائے میں جسٹس بندیال کا آخری فیصلہ آئندہ ہونے والے انتخابات پر اثرانداز نہیں ہو گا اور جن سیاستدانوں کے خلاف مقدمات ازسرِنو بحال ہو جائیں گے‘ جب تک انہیں احتساب عدالتوں سے سزا نہیں ہو جاتی وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔
اس دوران نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حلف لینے کے بعد اہم انتظامی فیصلہ بھی سامنے آگیا ہے اور انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فل کورٹ بینچ تشکیل دے دیا ہے جو کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی آج بروز پیر کو سماعت کرے گا۔ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ ایکٹ 2023ء کے کیس کی سماعت میں سابق فیصلوں کو معطل یا کالعدم قرار دیا جاتا ہے تو قومی احتساب بیوروترامیم کو بھی بحال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح جسٹس(ر) عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کی جس نظرِثانی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے کالعدم یا مسترد کر دیا تھا ممکنہ طور پر اس پر بھی ازسر نو فیصلہ کرنے کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔ نئے چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے تیرہ ماہ کے دوران عدالتِ عظمیٰ کے وقار کو بحال کرنا ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین سابق چیف جسٹس صاحبان نے جو فیصلے دیے ان پر غور و خوض کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کو بین الاقوامی ججز کے معیار پر بھی لانا ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ملک سے بدعنوانی کا اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا خاتمہ قومی ترقی و خوشحالی کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس مقصد کے لیے شفاف‘ غیر جانبدار‘ بااختیار‘ سیاسی مداخلت سے آزاد اور قومی زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے سٹیک ہولڈرز کے لیے یکساں اور خودکار نظامِ احتساب لازمی ہے۔ نئے چیف جسٹس آف پاکستان سے توقع کی جا رہی ہے کہ سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کی باہمی مشاورت سے موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام کی خامیاں دور کر کے ایک مؤثر شفاف‘ منصفانہ اور ہمہ گیر غیرجانبدارانہ نظامِ احتساب وجود میں لائیں۔
دوسری جانب نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اگلے روز امریکی میڈیا سے انٹر ویو کے دوران کہا کہ نگران حکومت انتخابات میں التوا کے لیے کوئی جواز سامنے نہیں لائے گی اور امن و امان اور سرحدی صور تحا ل کے باعث انتخابات میں تاخیرنہیں ہوگی۔انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کا کام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرناہے جس کے لیے مکمل تیار ہیں۔نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انتخابات سے متعلق قیاس آرائیاں ختم کرنا نگرا ن حکومت کا کام نہیں‘ انتخابات کا انعقاد آئینی طور پر الیکشن کمیشن کا کام ہے۔نگران وزیراعظم نے پرعزم طور پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سرحدوں پر خطرات ہونے کے باوجود انتخابات بروقت ہوں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہے اور الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان جلدکرنے والا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ازسرِنو حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی درستی کے عمل سے تیزی سے گزر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کاغذاتِ نامزدگی کے مجوزہ فارم کے رولز میں تبدیلی کر کے ایسی شقیں شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے ذریعے مستقبل کے پارلیمنٹ کے ارکان کے کاغذات کی جانچ پڑتال ایسے انداز میں کی جائے جس کے تحت کرپشن زدہ اور قرضوں کی معافیاں اور ترقیاتی فنڈز سے فوائد حاصل کرنے والوں کو احتساب کے عمل سے گزر کر ہی انتخابی عمل کا حصہ بننے کا موقع ملے گا۔ اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پولیٹیکل فنانشل ونگ نے کاغذاتِ نامزدگی کے فارم میں ایسی تبدیلی لانے کے لیے رولز میں تبدیلی لانے کا طریقہ کار اپنانے کی کوشش کر سراہا ہے جس میں قومی احتساب بیورو‘ ایف آئی اے اور ایف بی آر اور حساس ترین اداروں سے بھی تعاون‘ معاونت حاصل کی جائے گی اور کاغذاتِ نامزدگی کی مکمل جانچ پڑتال کر کے ریکارڈ ویب سائٹ کے ذریعے ریٹرننگ آفیسرز کو بھجوایا جائے گا اور متعلقہ امیدوار کے مخالفین کو بھی مواد تک رسائی حاصل ہو گی۔
توقع کی جا تی ہے کہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان بھی الیکشن کمیشن کی آئینی طور پر معاونت کریں گے اور انتظامی طور پر عدالتوں سے جوڈیشل آفیسرز کو بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر خدمات کی جو استدعا الیکشن کمیشن نے اعلیٰ عدالتوں کو بھجوائی ہے اس پر بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی استدعا کو منظور کروائیں گے تاکہ بیورو کریسی کے بجائے جوڈیشل آفیسرز کی نگرانی میں انتخابات کرائے جائیں اور کسی سیاسی جماعت کو بھی شفافیت پر اعتراضات کرنے کا موقع نہ ملے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں