"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کی تاریخ اور نیا مانیٹرنگ سسٹم

الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد انتخابات میں غیر معمولی التوا کے حوالے سے موجود خدشات دم توڑ جانے چاہئیں۔ گزشتہ روز منعقدہ اجلاس میں الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے کام کا جائزہ بھی لیا جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023ء کو شائع کر دی جائے گی اور ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات اور تجاویز کی سماعت کے بعد حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائے گی اور اس کے بعد 54 دن کے الیکشن پروگرام کے بعد انتخابات جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں کرا دیے جائیں گے۔الیکشن کمیشن کے اس اعلان کے بعد اب اگر ملکی حالات میں کوئی غیر متوقع تبدیلی رونما نہ ہوئی اوریہ آئین کے آرٹیکل (2)218 کے مطابق الیکشن کے لیے موزوں رہے تو جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں ملک میں عام انتخابات منعقد ہو جائیں گے۔ آئندہ انتخابات کے لیے ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد پولنگ سٹیشن قائم کیے جائیں گے‘ جن تک 15 لاکھ کے لگ بھگ پولنگ عملے اور ساڑھے 12کروڑ سے زائد ووٹرز کی پُر امن رسائی کی یقین دہانی کے بعد انتخابات کا بگل بج جائے گا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان‘ جہاں حالیہ کچھ عرصہ کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے‘ وہاں پولنگ عملے کا تحفظ یقینی بنانا الیکشن کمیشن کی ایک بڑی ذمہ داری ہو گی جبکہ قومی اسمبلی کی 266اور صوبائی اسمبلیوں کی 593نشستوں پر اُمیدواروں کی طرف سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کے دوران ریٹرننگ افسران کی سکیورٹی کی ذمہ داری بھی قانونی طور پر الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان تمام تر حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی الیکشن شیڈول جاری کرنا ہے۔
ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کے اعداد و شمار بھی جاری کر دیے گئے ہیں جس کے مطابق چار سال میں ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 2 کروڑ 10 لاکھ کا اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 2018ء میں 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 ووٹرز رجسٹرڈ تھے‘ اب یہ تعداد 12 کروڑ‘ 69 لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 84 لاکھ 72 ہزار 14 ہے جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 85 لاکھ 8 ہزار258 ہے۔ پنجاب میں ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 23 لاکھ 10 ہزار 582 ‘ سندھ میں دو کروڑ‘ 66 لاکھ 51 ہزار 161‘خیبر پختونخوا میں دو کروڑ 16 لاکھ 92 ہزار 381 جبکہ بلوچستان میں 52 لاکھ 84 ہزار 594 ہے۔ اسلام آباد میں ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 41 ہزار 554 ہے۔الیکشن کمیشن نے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد کا یہ نوٹیفکیشن الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 33 تا 49 پر عملدرآمد کرتے ہوئے جاری کیا ہے۔ ووٹرز کے اعداد وشمار انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کی ابتدائی حد بندی 26 ستمبر تک مکمل ہونے کی امید کے اظہار کے ایک روز بعد سامنے آئے جبکہ گزشتہ روزالیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے۔الیکشن کمیشن نے یکم ستمبر کو 14 دسمبر کے بجائے 30 نومبر کو حلقہ بندیوں کا کام ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو انتخابات کے لیے پہلی شرط انتخابی فہرستیں جاری کرنا ہے۔ اس کی تکمیل ہو چکی ہے اور آئین کے آرٹیکل(5) 51کے تحت حلقہ بندیوں کا عمل بھی نومبر کے دوسرے ہفتہ میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔یہ دونوں قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد انتخابی شیڈول کے اجرا کی راہ میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں رہے گی۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ الیکشن شیڈول آخر کب جاری ہوگا۔ اس کے بارے میں یقین سے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا اور زیادہ زور قیاس آرائیوں پر ہے۔اب بھی یہ ابہام پیدا کیا جا رہا ہے کہ الیکشن دو سال تک مؤخر ہو سکتے ہیں۔ بے یقینی کے اس ماحول میں کسی سیاسی جماعت نے باقاعدہ انتخابی مہم بھی شروع نہیں کی لیکن اب الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد انتخابی مہمات کا آغاز ہو جائے گا۔بلاول بھٹو زرداری کسی حد تک پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنے قائد میاں نواز شریف کی لندن سے واپسی کے بعد ہی ایک مضبوط انتخابی مہم کا آغاز کر سکے گی۔ سیاسی جماعتوں نے ابھی تک اپنا انتخابی منشور بھی جاری نہیں کیا۔پارلیمانی بورڈ کی طرف سے ابھی تک الیکشن ایکٹ کے مطابق متوقع امیدواروں کو ٹکٹ دینے کیلئے قانونی ضروریات اور رہنما اصول بھی وضع نہیں کیے گئے۔27ستمبر تک حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست کی اشاعت کا اعلان الیکشن کمیشن کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے 17 اگست کو جو اعلامیہ جاری کیا تھا اس کے مطابق حلقہ بندیاں 17کتوبر تک مکمل ہونا تھیں جن کی ابتدائی فہرست 19کتوبر کو شائع ہوتی‘ تاہم الیکشن کمیشن نے یکم ستمبر کواپنے اس پروگرام پر نظرثانی کرتے ہوئے حلقہ بندیوں کا وقت 14 روز کم کیا یعنی 14 دسمبر کی بجائے اب30 نومبر کو یہ عمل مکمل کر لیا جائے گا جس سے انتخابات جنوری کے آخری ہفتہ میں ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
انتخابات کے حوالے سے ایک اہم مدعا ان کی شفافیت بھی ہے۔ بدقسمتی سے ملکِ عزیز میں اب تک جتنے بھی انتخابات منعقد ہو چکے ہیں‘ ان کی شفافیت پر ہمیشہ سوال اٹھتا رہا ہے۔ اس ضمن میں خوش آئند امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اب انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آئندہ انتخابات کے دوران جو مانیٹرنگ سسٹم استعمال کرے گا‘ وہ سسٹم بھی انتخابات میں دھاندلی کے تاثر کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ آئندہ عام انتخابات کے لیے جو آر ٹی ایس متعارف کروایا جا رہا ہے وہ بہت کامیاب ہے۔ اس پر ہیکنگ کے مختلف تجربات ہو چکے ہیں اور مزید بھی کیے جا رہے ہیں تاکہ اسے تمام لُوپ ہولز دور کرنے کے بعد ایک محفوظ سسٹم بنایا جا سکے کیونکہ ہمارے ہاں سسٹم کو سبوتاژ کرنے والے مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کی کوئی کمی نہیں۔اُمید کی جاتی ہے کہ اس سسٹم کے استعمال سے وہ صورتحال پیدا نہیں ہو گی جو 2013ء اور 2018ء میں پیدا ہوئی تھی۔الیکشن کمیشن بھی یہی یقین دہانی کروا رہا ہے۔ کمیشن کا یہ اعلامیہ غیر متوقع نہیں ہے‘ ماضی میں بھی الیکشن کمیشن شفافیت کی یقین دہانی کرواتا رہا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے لیے یو این ڈی پی نے 40کروڑ روپے کی لاگت سے جو زرلٹ ٹرانسمیشن سسٹم بنایا تھا‘ وہ فلاپ ہو گیا۔ پاکستان میں یو این ڈی پی کے اُس وقت کے کنٹری ڈائریکٹر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد جب یہاں سے جا رہے تھے تو انہوں نے ایک انٹر ویو میں پاکستان کے سیاستدانوں کے حوالے سے بیان دیا تھا کہ یہ ملک کے وفادار نہیں ہیں۔ میں نے ان کے اس بیان کی روشنی میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا کو ایک خط بھی لکھا تھا۔2018ء کے انتخابات کے لیے بنایا گیا آر ٹی ایس سسٹم بھی فلاپ ہو گیا۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن نے سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو خطوط لکھے کہ سسٹم کی ناکامی پر تحقیقات کی جائیں اور نادرا کو بھی اس میں فریق بنایا جائے لیکن اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔اُمید ہے کہ اس بار ایسا نہیں ہوگا اور آئندہ عام انتخابات میں شفافیت یقینی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ بہر حال کم از کم مدت میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کی کاوشیں قابلِ تعریف ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں