"KDC" (space) message & send to 7575

مقدمات اور انتخابات میں شرکت

آئندہ عام انتخابات‘ جو کہ ممکنہ طور پر اگلے سال کے شروع میں منعقد ہو سکتے ہیں‘ کے لیے انتخابی دنگل سج چکا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی بھرپور تیاری میں نظر آ رہا ہے۔ آئندہ عام انتخابات کی جانب ایک اور اہم پیشرفت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے ملکی و غیر ملکی میڈیا اور مبصرین کیلئے ضابطہ اخلاق کو حتمی شکل دیتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ملکی سالمیت‘ وقار اور خودمختاری کے خلاف کوئی مواد شائع یا نشرنہیں کیاجائے گا۔الیکشن کمیشن نے ملکی مبصرین کیلئے 14‘ ملکی میڈیا کیلئے 17 جبکہ غیر ملکی مبصرین ومیڈیا کو الیکشن کوریج کیلئے 31 نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کیاہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق غیر ملکی مبصرین اور میڈیا نمائندگان بروقت اپنا ویزا حاصل کرسکیں گے اور وہ ویزا کی مدت سے زیادہ پاکستان میں قیام نہیں کرسکتے۔غیرملکی مبصرین ومیڈیا نمائندگان حکومت کی جانب سے دی گئی ایڈوائزری پرعمل کریں گے اورانتخابی عمل کے دوران غیرجانبداررہیں گے اور ان پر پاکستان کی خودمختاری کا احترام لازمی ہوگا۔وہ انتخابی عملہ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ساتھ تعاون کریں گے۔قومی میڈیا‘ جس میں پرنٹ‘ الیکٹرانک‘ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا انفلونسرز شامل ہیں‘ کیلئے17 نکاتی ضابطہ اخلاق کی پابندی لازم ہے جس کی خلاف ورزی پر ان کی ایکریڈیشن ختم کی جا سکتی ہے۔ قومی میڈیا پاکستان کے نظریات‘ خود مختاری‘ سکیورٹی‘ عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف رائے کی عکاسی نہیں کرے گا اور ایسے بیانات جن سے قومی اتحاد اور امن کو کوئی خطرہ ہو‘ کو نشر نہیں کیا جائے گا۔ضابطہ اخلاق کے مطابق میڈیا رپورٹنگ میں کوئی ایسا مواد شامل نہیں ہوگا جو کسی سیاسی جماعت‘ مذہب یا برادری پر ذاتی حملہ ہو۔ ایک امیدوار کے دوسرے امیدوار پر الزام پر دونوں اطراف سے بیان اور تصدیق کی جائے گی۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے میڈیا نمائندوں اور میڈیا ہاؤسز کو تحفظ فراہم کریں گے۔قومی خزانے سے کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کی مہم نہیں چلائی جائے گی‘ صرف ووٹرز کی آگہی کے پروگرام چلائے جائیں گے۔ الیکشن کے دن سے 48 گھنٹے قبل الیکشن میڈیا مہم ختم کر دی جائے گی۔ انٹری ایگزٹ پولز‘ پولنگ سٹیشن یا حلقے میں سروے کی اجازت نہیں ہو گی کیونکہ اسی سے کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ جن میڈیا پرسنز کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے خصوصی کارڈز جاری کیے جائیں گے‘ صرف وہی پولنگ عمل کی ویڈیو بنانے کیلئے پولنگ سٹیشن میں داخل ہوسکیں گے۔ میڈیا نمائندگان ووٹوں کی گنتی کے عمل کا بغیر کیمرا کے مشاہدہ کرسکیں گے۔ بین الاقوامی مبصرین کا جو اہم ترین مشن پاکستان آ رہا ہے‘ ان کو درست معلومات کی فراہمی اور انتخابی عمل کی بریفنگ الیکشن کمیشن آف پاکستان جبکہ ان کی پولنگ سٹیشنوں تک آمدو رفت اور سکیورٹی وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنے ادارتی میڈیا ونگ کو بھی فعال اور سرگرم رکھنا ہو گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میڈیا کیلئے حالیہ ضابطہ اخلاق میں‘ 2008ء کے انتخابات میں میڈیا کیلئے جو ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا تھا‘ اسی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے لیے میڈیا ضابطہ اخلاق تیار کرتے ہوئے میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان اقوامِ متحدہ کے میڈیا چارٹر‘ کامن ویلتھ سیکرٹریٹ کا میڈیا کے لیے وضع کردہ رہنما اصول اور یورپی یونین کے تیار کردہ بین الاقوامی میڈیا ریفرنس کو مدنظر رکھا تھا اور وزارتِ اطلاعات و نشریات کے حکام کو بھی مذکورہ ضابطہ اخلاق کی تیاری میں شامل کیا تھا۔ اس ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی بھی میڈیا ہاؤس یا مبصر کو کسی امیدوار کی کردارکشی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہیے کہ اُن غیر سرکاری تنظیموں جو کہ فارن فنڈنگ سے چلتی ہیں‘کے انتخابات یا انتخابی عمل کے حوالے سے اُن غلط سرویز یا تجزیوں کا جائزہ لیتے ہوئے جن سے انتخابی عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ وزارتِ اقتصادی امور کے اعلیٰ حکام کی مشاورت سے آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور ایف آئی اے کو ان کی فنڈنگ کی تحقیقات کا حکم جاری کرے۔ بعض غیر سرکاری تنظیموں نے اپنا وزن بڑھانے کے لیے دیگر درجنوں ایسی غیر سرکاری تنظیموں کو ملا کر ایک تنظیم بنا رکھی ہے‘ جو صرف کاغذی تنظیمیں ہیں اور ان کا کوئی ریکارڈ اور دفتر تک موجود نہیں ہے اور نہ ہی بینک اکاؤنٹس کی کوئی تفصیلات موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وزارتِ اقتصادی امور کو چاہیے کہ ایسی غیر سرکاری تنظیموں کا ریکارڈ حاصل کرے۔ اسی طرح یو این ڈی پی‘ یو ایس ایڈ اور یورپی یونین کے وہ ادارے جو ایسی غیر سرکاری تنظیموں کو فنڈنگ کرتے ہیں‘ ان کو بھی ان کی فنڈنگ کے غلط استعمال سے مطلع کیا جانا چاہیے۔
وزیراعظم پاکستان نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دی گئی تاریخ پر نگران حکومت ملک میں لازماً عام انتخابات کرائے گی اور کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جائے گا۔ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام جماعتوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انتخابات میں اپنے امیدوار سامنے لائیں۔ دراصل بعض حلقوں کی طرف سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کو نو مئی کے واقعات کے تناظر میں انتخابی عمل میں شامل نہیں کیا جائے گا‘جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پر نو مئی کے قانون شکن واقعات کے بعدبھی نہ اب تک کوئی پابندی عائد کی گئی ہے اور نہ آئندہ اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ جہاں تک اس جماعت کے چیئرمین کی انتخابی عمل میں شرکت کا معاملہ ہے تو ان کے خلاف قائم مقدمات کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے اور قانون اس معاملہ میں اپنا راستہ خود بنائے گا۔ یہ صورتحال صرف تحریک انصاف ہی نہیں‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو بھی درپیش ہے جنہیں چار سال بعد پاکستان واپسی پر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔ جس کیس میں وہ سزایافتہ ہیں اس میں ان کے جیل جانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ انتخابی عمل میں ان کی شرکت بھی اپنے خلاف موجود مقدمات سے بریت پر مشروط ہے۔ نگران وزیراعظم نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ نواز شریف عدالتی فیصلے کے تحت بیرونِ ملک گئے‘ ان کی واپسی پر بھی قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ یہ صورتحال قانون کی بالادستی اور جمہوری اصولوں کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت پر واضح آئینی اور قانونی اسباب کے بغیر پابندی لگانے کا نہ صرف یہ کہ کوئی جواز موجود نہیں بلکہ عوامی حمایت کی حامل کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کا نتیجہ اس کے ووٹ بینک میں مایوسی اور انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کی صورت میں نکلتا ہے۔ سیاسی استحکام کے لیے یہ صورتحال کس قدر مہلک ہو سکتی ہے یہ بات ماضی کے تجربات بالخصوص مارچ 1977ء کے انتخابی نتائج سے اخذ کی جا سکتی ہے‘ تاہم ملک میں سیاسی استحکام کے لیے انتخابات کی حتمی تاریخ کے اعلان کے لیے 30نومبر تک انتظار کرنا ہوگا۔
گوکہ نگران حکومت نے معاشی بحالی کیلئے موثر اقدامات کیے ہیں لیکن اس کا اصل کام انتخابات کرانا ہی ہے جو آئین کے آرٹیکل 224 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 230 میں واضح ہے تاکہ ملک میں منتخب حکومت کا قیام عمل میں آئے جو مکمل آئینی اختیارات کیساتھ کاروبارِ مملکت چلائے اور یوں پائیدار سیاسی و معاشی استحکام کی راہ ہموار ہو۔ انتخابی عمل کو انتشار اور اشعال انگیزی سے محفوظ رکھنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے مرتب کردہ ضابطہ اخلاق‘ جس کو پارلیمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہے‘ پر عملدرآمد کرانا ہو گا۔لازمی ہے کہ دوسروں پر بے بنیاد الزام تراشی اور سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے بجائے ہر جماعت اپنی سابقہ کارکردگی اور قابلِ عمل منشور کی بنیاد پر الیکشن لڑے اور انتخابی عمل کو سیاسی انتشار سے بچائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں