"KDC" (space) message & send to 7575

ریٹرننگ افسران کا مخمصہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں آئندہ عام کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کر چکا ہے اور اس حوالے سے 30اکتوبر تک مزید اہم فیصلے کرنے جا رہا ہے۔ آئندہ عام انتخابات کی تیاری کی طرف ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے گزشتہ ہفتے کے دوران الیکشن کمیشن نے قومی میڈیا کے لیے17نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کر دیا ہے جس میں پرنٹ‘ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا انفلونسرز شامل ہیں جبکہ غیر ملکی میڈیا نمائندگان اور مبصرین کے لیے 31نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا ہے۔ مذکورہ ضابطہ اخلاق کے تحت قومی میڈیا پاکستان کے نظریات‘ خود مختاری‘ سکیورٹی‘ عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف رائے کی عکاسی نہیں کرے گا اور ایسے بیانات جن سے قومی اتحاد اور امن کو خطرہ ہو‘ نشر نہیں کیا جائے گا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ہی الیکشن کمیشن نے ایک اجلاس میں انتخابی ضابطہ اخلاق سے متعلق سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت کی۔ یہ اجلاس چیف الیکشن کی سربراہی میں ہوا تھا جس میں سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان اور الیکشن کمیشن کے سینئر افسران نے شرکت کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے ڈرافٹ ضابطہ اخلاق پر فیڈ بیک لیا اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے تجویز کردہ ترامیم کو ڈرافٹ ضابطہ اخلاق میں شامل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آئندہ عام انتخابات میں ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد کروائے گا تاکہ غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جا سکے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ عام انتخابات کیلئے حتمی حلقہ بندیوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔ کمیشن کی طرف سے 27 ستمبر کو ابتدائی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کی گئی تھی جس پر 27اکتوبر تک اعتراضات دائر کرائے جا سکتے ہیں جن پر الیکشن کمیشن روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گا اور 26نومبر تک ان اعتراضات کے حوالے سے فیصلہ کردیا جائے گا اور پھر 30 نومبر کو حتمی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کی جائے گی۔ اسی طرح الیکشن کمیشن نے 25اکتوبر تک انتخابی فہرستوں کو غیرمنجمد کر دیا ہے تاکہ عوام اس اقدام سے فائدہ اٹھا سکیں اور انتخابی فہرستوں میں اپنے ووٹ کا اندراج یقینی بنا سکیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تمام اہل افراد جن کے پاس شناختی کارڈ موجود ہو‘ وہ 25 اکتوبر تک اپنے ووٹ کا اندراج کرا سکتے ہیں۔ اگر کوائف یا ایڈریس میں کوئی غلطی ہو وہ بھی درست کی جا سکتی ہے۔ ان اقدامات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن کے روڈمیپ کو کس تیزی آگے لے کر جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن سندھ اور بلوچستان کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کر کے انہیں بھی یہ ہدایات دے چکا ہے کہ شفاف انتخابات اہم قومی ذمہ داری ہے اور نگران حکومتیں آئینی طور پر اپنا کردار ادا کریں اور انتخابات کے غیر جانبدارانہ اور پُرامن انعقاد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے جوڈیشل افسران کی خدمات مستعار لینا چاہتا ہے اور الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے چار ہائی کورٹس میں استدعا بھی کر رکھی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی چیف الیکشن کمشنر سے حالیہ ملاقات کے دوران استدعا کی تھی کہ جوڈیشل افسران کو ہی ریٹرننگ افسر لگایا جائے کیونکہ ان کے بقول بیورو کریسی کا جھکاؤ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی طرف ہوتا ہے اور عوام بھی بیورو کریسی سے نامزد کردہ ریٹرننگ افسران پر زیادہ اعتماد نہیں کرتے۔ بہرحال یہ فیصلہ تو عدالت عالیہ نے ہی کرنا ہے‘ اگر کسی ٹھوس وجہ کی بنا پر الیکشن کمیشن کی یہ درخواست منظور نہیں کی جاتی تو بیورو کریسی سے ہی ریٹرننگ افسران مقرر کیے جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو بیورو کریسی سے بدگمان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور چاروں اراکینِ الیکشن کمیشن کی موجودگی میں بیورو کریسی کے نامزد کردہ ریٹرننگ افسران احسن طریقے سے اپنے قانونی اختیارات کو بروئے کار لائیں گے۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن کی اہم ترین دستاویزات ''ڈسکہ رپورٹ‘‘ نے بھی انتخابی دھاندلی اور بدعنوانیوں کے دروازے کافی حد تک بند کر دیے ہیں۔الیکشن کمیشن پہلے ہی آئندہ عام انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہا تھا لیکن اب روایتی اور سوشل میڈیا پر شفاف انتخابات کے انعقاد پر جس قدر زور دیا جا رہا ہے‘ الیکشن کمیشن اس حوالے سے مزید سنجیدہ اور متحرک ہو چکا ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی ہدایت پر پی ٹی آئی کے ایک وفد نے صدرِ مملکت سے اہم ملاقات کی ہے۔ملاقات میں گرینڈ ڈائیلاگ کی جس پیش کش پر بات کی گئی ہے وہ اب اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ موجودہ حالات میں ایسے گرینڈ مذاکرات کے انعقاد سے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آنے والے۔ صدرِ مملکت مخلص سیاستدان ہیں‘ ان کی خواہش تھی کہ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہوں اور نہ ہی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کیا جائے لیکن ان کی جماعت کی قیادت نے ان کی رائے کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ مزاحمتی اور انتقامی سیاست کا انجام دیکھنے کے بعد اب جب تحریک انصاف کی طرف سے مذاکرات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے تو اب اس ضمن میں کافی دیر ہو چکی ہے کیونکہ اب دیگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاریوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ تحریک انصاف کی مزاحمتی اور جارہانہ پالیسی کا انجام نو مئی کے واقعات کی صورت میں سامنے آ چکا ہے جس کے بعد یہ جماعت مقتدر حلقوں کا اعتماد نہ صرف کھو بیٹھی ہے بلکہ تاحال یہ بحال ہوتابھی نظر نہیں آتا۔ اب پارٹی کی کور کمیٹی کے رہنماؤں کو ایسی پالیسی مرتب کرنی چاہیے جس سے ان کے لیے آئندہ انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے۔
عمران خان اس وقت سائفر کیس میں اپنے خلاف اپنے ہی ساتھیوں کے وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد مشکل ترین وقت سے گزر رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کے کم و بیش تمام اہم رہنما ان سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے پارٹی کے بانی اراکین اور سنجیدہ رہنما آگے بڑھیں اور پارٹی میں انٹرا پارٹی الیکشن کروا کے ایک ایسی شخصیت کی سربراہی قبول کریں جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ تحریک انصاف پارٹی کے ان رہنماؤں کو آگے لائے جو 2012ء تک نظریاتی بنیادوں پر پارٹی کے ساتھ جڑے رہے تھے لیکن بعد ازاں انٹرا پارٹی الیکشن سے بدظن ہو کر علیحدہ ہو گئے تھے۔ آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کی شمولیت جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے لازمی ہے‘ اگر کسی وجہ سے تحریک انصاف کو انتخابات سے علیحدہ رکھا گیا تو اس کے حامیوں کا جمہوری سسٹم پر اعتماد کمزور ہوگا۔ نتیجتاً ملک میں سیاسی استحکام بھی نہیں آ سکے گا۔ اگر ایسا ہوا تو انتخابات پر خرچ ہونے والے پچاس ارب روپے ضائع چلے جائیں گے اور بین الاقوامی مبصرین کو بھی اس حوالے سے رائے زنی کا موقع مل جائے گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکشن ایکٹ کے تحت نئے انتخابی رولز بنانے کے مکمل اختیارات حاصل ہیں اور اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے 18 کے لگ بھگ انتخابی رولز میں ترامیم کر کے الیکشن کی شفافیت کیلئے اہم قدم اٹھایا ہے۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن کو بیلٹ پیپرز پر Non of Above کا کالم بھی شامل کرنا چاہیے تاکہ ووٹروں سے یہ رائے لی جا سکے کہ وہ فہرست میں سے کسی امیدوار کو اہل بھی سمجھتے ہیں یا نہیں اور اگر 30 سے 40فیصد ووٹر بیلٹ پیپرز پر موجود امیدواروں کے خلاف عدم اعتماد کریں تو ان حلقوں میں ازسرنو انتخابات کرا کے سسٹم کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ یہ سسٹم اس وقت انڈیا میں بڑی کامیابی سے چل رہا ہے جو کہ بنگلہ دیش سے مستعار لیا گیا تھا۔ پاکستان میں بھی اس سسٹم کے حق میں آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں