"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کے حوالے سے سماعت کا آغاز

21 اکتوبر کی شام لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نواز شریف کے عوامی اجتماع سے خطاب سے قبل سیاسی مبصرین اپنے اپنے اندازوں میں مصروف تھے۔ کوئی اس امکان کا اظہار کر رہا تھا کہ وطن واپسی پر وہ اپنا سیاسی سفر مقتدرہ کے خلاف اُسی مزاحمتی بیانیے سے شروع کریں گے جو انہوں نے 2017ء میں اقتدار سے محرومی کے بعد اختیار کیا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ انتقامی سیاست کو ترجیح دیں گے لیکن میاں نواز شریف نے لاہور کے تاریخی جلسہ میں مدبرانہ انداز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کسی سے بدلے کی تمنا نہیں‘ میری صرف ایک ہی تمنا ہے کہ ہماری قوم خوشحال ہوجائے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے سیاسی جماعتوں‘ ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کو مل جل کر کام کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈبل سپیڈ کے ساتھ دوڑنا ہو گا‘ہاتھوں میں پکڑے کشکول کو توڑنا ہو گا‘ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا اور قوم کی غیرت و وقار کو بلند کرنا ہو گا‘ملک سے مہنگائی اور بے روزگاری کو ختم کرنا ہوگا‘ ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔میاں نواز شریف کے خطاب سے جہاں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس بار معیشت کی بہتری اور ملک و قوم کی خدمت اُن کی اولین ترجیح ہے وہیں ان کی تقریر سے ان کے مفاہمتی بیانیے کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔باقی سیاسی اکائیوں کو بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں مفاہمت کی سیاست کو ترجیح بنا لینا چاہیے۔ آئندہ عام انتخابات اب قریب آ رہے ہیں اور انتخابات سے قبل مفاہمت انتخابات کے لیے درکار ماحول کو بہتر کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کا 21اکتوبر کا جلسہ بلا شبہ تاریخ ساز تھا۔ اس جلسے میں کسی ایک شہر یا کسی ایک صوبے سے ہی نہیں بلکہ ملک بھر سے مسلم لیگ (ن)کے حامیوں نے بھرپور شرکت کی۔ کچھ تو میاں نواز شریف کا نیا بیانیہ سننے آئے تھے اور کچھ صرف ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے‘ لیکن اس جلسے نے مسلم لیگ (ن) کی سیاست میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔(ن)لیگ کو میاں نواز شریف کی واپسی کا ایڈوانٹیج بھی حاصل ہو گیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین کی نظریں بھی اس جلسے پر ٹکی ہوئی تھیں کہ میاں نواز شریف ملک اور عوام سے چار سال دور رہنے کے بعد کتنے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر پاتے ہیں اور یہ کہ مسلم لیگ (ن)مینارِ پاکستان کی وسیع گراؤنڈ میں اپنے قائد کی آمد پر کتنے لوگوں اکٹھا کر پاتی ہے۔ جہاں نجی ٹی وی چینلز تقریباً 12گھنٹوں تک میاں نواز شریف کی آمد اور جلسے کی کوریج کرتے رہے وہیں سرکاری ٹیلی ویژن بھی ان کی واپسی کو براہِ راست نشر کرتا رہا۔ اس پہلو سے بھی میاں نواز شریف اور اُن کی جماعت کے سیاسی مستقبل کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بہر حال میاں نواز شریف اپنے خطاب میں بار بار یہ یقین دلاتے رہے کہ وہ انتقام لینے نہیں آئے۔ انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر ماضی میں اپنے ساتھ روا رکھے گئے برتاؤ پر بھی لب کشائی کی۔پاکستان آمد سے چند ہفتے پیشتر انہوں نے سابق عسکری قیادت کے بارے میں جو ریمارکس دیے تھے‘ اس کے ازالہ کے لیے وہ اپنے ماضی کو فراموش کرنے کی راہ پر چلتے ہوئے نظر آئے لیکن اپنے اُن زخموں کا بھی ذکر کیا جو ان کے بقول کبھی بھریں گے نہیں۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ میری والدہ اور میری اہلیہ سیاست کی نذر ہو گئیں‘ یہ زخم کبھی بھرے گا نہیں۔میں نے جیل میں کہا کہ میری اہلیہ سے بات کرادیں۔ کسی نے مجھے میری اہلیہ سے بات کرانے کی اجازت نہیں دی‘ مجھے کہا گیا ہمیں اجازت نہیں ہے۔
تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی چار سال بعد وطن واپسی‘ ملک کی سیاسی تاریخ کا بلاشبہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ چار سال پہلے کسی کے لیے بھی یہ کہنا محال تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے تاحیات نااہل قرار دیے جانے والے اور ایک احتساب عدالت سے دس سال قید کی سزا پانے والے میاں نواز شریف علاج کی غرض سے لندن جانے کے بعد قطعی بدلے ہوئے حالات میں وطن واپس آئیں گے۔ تاہم اس مدت میں ایسے بہت سے حقائق سامنے آچکے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ آئین و قانون کے مطابق سویلین بالادستی کے قیام کے لیے ان کے عزم نے بعض افراد کے لیے انہیں ناقابلِ برداشت بنا رکھا تھا۔ اپنے سابقہ ادوارِ حکومت میں بھی وہ اسی وجہ سے مشکلات کے شکار نظر آئے۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد میاں نواز شریف کے تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہونے کے بعد سے ہی ان کی حکومت مشکلات کا شکار ہو گئی تھی۔ گوکہ تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے ملک میں بیشتر ترقیاتی منصوبے شروع کروائے لیکن ان کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی ان کی حکومت گرانے کی منصوبہ بندی شروع ہو چکی تھی۔ 2013ء کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر پاکستان تحریک انصاف نے 6ماہ سے زائد عرصہ تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاجی دھرنا دیے رکھا‘ تحریک انصاف کا یہ دھرنا بھی میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کیلئے کی گئی منصوبہ بندی کی ایک کڑی تھا۔ ان کی گورننس کے حوالے سے بھی اعتراضات اور سوالات اٹھائے جاتے رہے۔ پھر مقتدر حلقوں سے بھی اُن کی اَن بن شروع ہو گئی۔اب میاں نواز شریف ایک بدلے ہوئے پاکستان میں واپس آئے ہیں‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کی جماعت اگلے الیکشن میں کس قدر ووٹ لے پاتی ہے۔میاں نواز شریف کا ایک سیاسی حریف تو جیل میں ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ وہ باقی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف کے کیسوں میں ہونے والی پیش رفت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے لیے بھی ریلیف کی راہ کھلتی نظر آتی ہے‘ان کو بھی لیول پلیئنگ فیلڈ میسر آنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔اس پیش رفت کے بعد ملک میں آئندہ عام انتخابات کی صورتحال بھی واضح ہو جائے گی کہ یہ جنوری 2024ء کے آخری ہفتے یا مزید تاخیر کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم الیکشن کمیشن قانونی طور پر دسمبر کے پہلے ہفتے میں الیکشن شیڈول جاری کرنے کا پابند ہے کیونکہ یہ شیڈول کم از کم 54دنوں پر محیط ہوتا ہے‘ یعنی اگر جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ہے تو دسمبر کے پہلے ہفتے میں ہر صورت میں الیکشن شیڈول سامنے آ جانا چاہیے۔ اُدھر سپریم کورٹ نے ملک بھر میں عام انتخابات ایک تاریخ کو کرانے کی درخواست واپس لیے جانے کی بنیاد پر خارج کردی ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 23 اکتوبر سے ملک میں عام انتخابات میں تاخیر اور 90روز میں انعقاد سے متعلق دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کا آغاز ہو چکا ہے۔ پیر کے روز ان درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ریمارکس دیے کہ انتخابات کے حوالے سے آئین واضح ہے‘ آئین کی ہر بات حتمی ہوتی ہے‘ صدرِ مملکت نے الیکشن کی تاریخ نہ دے کر آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی ہے۔آئین کی خلاف ورزی پر آرٹیکل6کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ اس کیس کی مزید سماعت دو نومبر کو ہوگی۔بادی النظر میں یہی نظر آ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن عدالتِ عظمیٰ کو دو نومبر کو ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کی حتمی تاریخ سے آگاہ کر دے گا جبکہ یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کیلئے پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان برقرار رہے گا اور چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس اور توہین الیکشن کمیشن کیس غیر معینہ مدت کیلئے موخر ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں