"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات اور آگے کا منظر نامہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آٹھ فروری کو قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے الیکشن ایکٹ (1)57 کے تحت نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلامیہ جاری ہونے پر ملک میں بے یقینی کی صورتحال‘ شکوک و شبہات اور افواہوں کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا ہے۔ انتخابات کے التوا کے بارے میں مختلف افواہیں مخصوص ایجنڈے کے تحت گردش کرتی رہی ہیں‘ تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان نے بڑی فراست سے بے یقینی کی یہ کیفیت ختم کی ہے۔سپریم کورٹ کے حکم پرچیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے ارکان نے صدر ِپاکستان سے ایوانِ صدر میں الیکشن کی تاریخ کے سلسلے میں ملاقات کی۔ ملاقات میں الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو 28جنوری‘4فروری اور 11فروری کو عام انتخابات کروانے کی تاریخیں تجویز کیں؛ تاہم تفصیلی مشاورت کے بعد 8فروری کی تاریخ پر اتفاق ہوگیا۔ یہ واضح صورتحال سپریم کورٹ آف پاکستان میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی روشنی میں پیدا ہوئی‘ جن میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کی استدعا کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوجانے پر تصور کیا جائے گا کہ یہ پتھر پر لکیر ہے اور عدالت عظمیٰ اسے بدلنے نہیں دے گی۔ اس تاریخ پر انتخابات یقینی بنائیں گے اور عدالت اپنے فیصلے پر عمل کروائے گی۔یاد رہے کہ 21ستمبر کو الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں عام انتخابات جنوری2024ء کے آخری ہفتے میں کرا دئیے جائیں گے، جبکہ میں نے ایک نیوز چینل پر18ستمبر کو عندیہ دیا تھا کہ عام انتخابات 24جنوری کے قریب ہو ں گے کیونکہ الیکشن کمیشن کا حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہونے کے بعد شیڈول کے مطابق54روز کے تحت مقررہ تاریخ24اور 28جنوری ہی بنتی ہے۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد یہ مدت 12نومبر2023ء کو بنتی تھی۔ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے اٹارنی جنرل‘ اعوام اور کمیشن کے ارکان‘ بمعہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے صدر مملکت سے ملاقات کی جہاں عام انتخابات کی تاریخ پر تبادلہ خیالات کر تے ہوئے انہیں حلقہ بندیوں کے کام اور دیگر امور سے آگاہ کیا گیا‘ بعد ازاں چیف الیکشن کمشنر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے 8فروری کو انعقاد کافیصلہ متفقہ ہے۔الیکشن کمیشن کے لئے تمام ادارے محترم ہیں لیکن الیکشن کمیشن اپنے مؤقف پر اب بھی قائم ہے۔ چیف الیکشن کمیشن نے زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین کے بارے میں اچھے کلمات کہے اور ان کی عوام میں مقبولیت کا بھی خوبصورت انداز میں ذکر کیا اور انتخابی نشان کے بارے میں بھی تمام شکوک و شبہات دور کر دئیے۔ چیف الیکشن کمشنر چیئرمین پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں اور بعدازاں ان کی سبکدوشی کے بعد دبائو میں نہیں آئے اور نہ ہی آئندہ کسی دبائو میں آئیں گے۔ اپوزیشن جماعت کو الزامات لگانے کے بجائے اپنی توجہ عام انتخابات کی تیاری پر مرکوز کرنی چاہیے۔
8فروری کے قومی انتخابات سے پہلے ملک کی دو بڑی اہم شخصیات کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اپنی سزائوں کو ختم کرنے کے بارے میں آئین و قانون کی روشنی میں جائزہ لینا ہوگا اور غالباً اس بارے میں بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کو ہی آئین کے آرٹیکل (1)62 ایف کا جائزہ لیتے ہوئے وسیع تر مفادِعامہ کے تحت فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ بادی النظر میں لاء آف لینڈ کے تحت ملک کی دو بڑی اہم شخصیات انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اہل نہیں۔اب جبکہ قومی انتخابات 8 فروری کو ہونے جارہے ہیں تو نا اہل ہونے والی شخصیات کو اعلیٰ عدالتوں سے اپنے معاملات ختم کرانا ہوں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان دسمبر کے پہلے ہفتے میں انتخابی شیڈول جاری کرے گا جس کے مطابق کاغذات نامزدگی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور ان حالات میں نواز شریف اور عمران خان کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ دونوں آئین کے آرٹیکل(1)63 کے تحت عوامی عہدہ رکھنے کے لئے اہل نہیں ہیں کیونکہ دونوں کو مختلف کیسز کے تحت مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں ان کی سزا معطل کر رکھی ہے تاہم متعین سزا اپنی جگہ برقرار ہے‘ جبکہ فوجداری نوعیت کے مقدمات میں اسلام آباد ہائی کورٹ ایسی اپیلیں باری آنے پر سماعت کے لئے مقرر کرتی ہے۔ نواز شریف کے کیس میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232میں سابق پارلیمنٹ کی ترمیم سے نواز شریف کو ممکن ہے فائدہ حاصل ہوجائے لیکن اس سلسلے میں بھی معاملہ سپریم کورٹ نے ہی طے کرنے ہیں۔ دراصل پارٹی مفادات کے حامل قانونی مشیراپنے کلائنٹ کو مشورہ دینے کے بجائے حقیقی کارڈ پوشیدہ رکھتے ہیں جس سے کلائنٹ کو نقصان پہنچے کا احتمال رہتا ہے‘ لہٰذا ایسے مشیروں کی خدمات حاصل کی جائیں جو سیاسی مفادات سے بالاتر ہوں۔ ممکن ہے کہ ایسے قانونی اور آئینی ماہرین درمیانی راستہ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔ پارٹی مفادات کے حامل قانونی مشیرکبھی ایسی رائے نہیں دیں گے۔
8فروری کے عام انتخابات پاکستان کے معاشی استحکام کے لئے بے حد ضروری ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے لئے آئی ایم ایف سے نوماہ کا تین ارب ڈالر کا پروگرام تین مرحلوں میں طے کیا گیا تھا۔ پہلی قسط سابق اتحادی حکومت کو مل چکی ہے‘ دوسری قسط نگران حکومت کو دسمبر میں ملنی ہے جو 710ملین ڈالر ہے۔ تیسری قسط منتخب حکومت کو مارچ میں ملنی ہے جو ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر ہو گی۔ اس لئے سب سے پہلے ملکی مفاد کو ذہن میں رکھ کر انتخابات کے لئے راہ ہموار کرنا ہوگی۔ ان حالات میں اگلا منظریوں نظر آتا ہے کہ 8فروری کو انتخابات ہوں گے اور 12فروری کو حتمی نتائج الیکشن کمیشن آف پاکستان کو موصول ہوجائیں گے اور اس کے بعد 14دنوں کے اندر آئین کے آرٹیکل223کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کامیاب ہونے والے امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا اور یہ عمل فروری کے آخر تک مکمل ہوجائے گا اور قومی اسمبلی کا اجلاس اس کے بعد کسی بھی وقت منعقد کروا کے لیڈر آف ہائوس کا انتخاب عمل میں آجائے گا اور مارچ کے پہلے ہفتہ میں سینیٹ کے 51ارکان کا انتخاب ہونا ہے اور 12مارچ کو چیئر مین سینیٹ کا انتخاب اور بعدازاں صدرِ مملکت کا انتخاب آئین کے آرٹیکل41کے تحت عمل میں آئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں