"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے چیلنج

الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ملک کے مستقبل کے وزیراعظم کے حوالے سے بحث مباحثے میڈیا کی زینت بن رہے ہیں اور اسی انداز میں گرماگرمی شرع ہو گئی ہے جیسا کہ 1971ء کے رزلٹ آنے کے بعد مجیب الرحمن اور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے حامیوں نے ملک کی وحدت و سالمیت کو نظرانداز کر تے ہوئے وزارت عظمیٰ تک رسائی کے لیے ملک کو خانہ جنگی میں جھونک دیا تھا۔ اب بھی بلاوجہ وزیراعظم بننے کی بحث سے عوامی مینڈیٹ کی توہین کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔عوام نے آٹھ فروری کو اپنے شعور کے مطابق پولنگ سٹیشن پر فیصلہ کرنا ہے اور میرے خیال کے مطابق عوام نے ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے تمام اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے۔ بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے رولز میں تبدیل کر کے پولنگ سٹیشن کے اندر ایک پوسٹر لگایا ہوتاہے کہ جس میں ووٹر کو مخاطب کرتے ہوئے اسے اسلامی روایات کے مطابق یہ باور کروایا جاتاہے کہ ووٹ نیک نامی‘ دیانتداری اور ایمانداری کی شہادت ہے؛چنانچہ امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ امیدوار کی شہرت کیسی ہے۔اگر وہ ووٹرز کے ووٹ ڈالنے سے کامیاب ہو کر عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کے بجائے بدعنوانی میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کے گناہ میں ووٹرز بھی برابر کا شریک تصور کیا جائے گا۔ بنگلہ دیش کے اس کامیاب تجربے سے سیاسی جماعتوں نے اُن انتخابی امیدواروں ہی کو ٹکٹ ایوارڈ کرنا شروع کر دیاجن کی شہرت اچھی ہو ‘ جبکہ ہمارے ہاں الیکشن سے سو دن پہلے ہی وزیراعظم کی تقرر کی ذومعنی بحث شروع ہو گئی ہے۔انتخاب کے بعد اکثریتی پارٹی کو ہی لیڈر آف ہاؤس کا انتخاب کرنا ہے۔
عمران خان کے سائفر سمیت تین اہم کیسز کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں جبکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں سماعت ہوگی۔ سائفر کیس کی جیل میں سماعت میں باقاعدہ ٹرائل کا آغاز ہو چکا ہے‘ تین گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہونے کے بعد ان پر جرح ہوگی۔ کیس کی جیل سماعت شروع ہونے کے بعد عمران خان کی طرف سے ان کے وکیل کے ہمراہ ٹرائل میں جرح کے لیے خصوصی طور پر فوجداری کے ماہر قانون کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جبکہ سائفر کیس میں خصوصی عدالت کے جج اور جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز سماعت کر رہے ہیں۔توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں سزا کے خلاف عمران خان کی مرکزی اپیل پر اہم سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری سماعت کر رہے ہیں۔ عدالت نے اپیل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نوٹس جاری کر رکھے ہیں‘ عمران خان نے سزا کے بعد فیصلہ معطلی کی بھی درخواست دائر کر رکھی ہے۔بظاہر ابھی یہ اپیل کچھ عرصہ چلے گی لیکن اگر ہر ہفتے کو سماعتیں شروع ہو گئیں تو جنوری تک فیصلہ بھی آ سکتا ہے۔اس فیصلہ سے عمران خان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ اگر ان کی سزا برقرار رکھی گئی تو وہ آٹھ فروری کے الیکشن کے لیے نااہل ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل سے باہر ہو جائیں گے۔ اگر فیصلہ ان کے حق میں آ جاتا ہے اور اپیل منظور ہو جاتی ہے تو سزا کالعدم اور نااہلی ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح توشہ خانہ‘ قومی احتساب بیورو اور القادر ٹرسٹ کیسز میں عمران خان کی ضمانت بحالی کی درخواستوں پر بھی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیرکریں گے۔ عمران خان کی دونوں ضمانتوں کی بحالی ہونے کے بارے میں کچھ لکھنا قبل از وقت ہے۔
عمران خان چونکہ نو کیسوں کے گرداب میں ہیں اور بادی النظر میں کاغذاتِ نامزدگی کے داخل ہونے تک ان کی سزا برقرار رہی تو وہ الیکشن لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے ،اسی طرح نواز شریف پر پانامہ کیس میں سزا کی تلوار لٹک رہی ہے ۔وہ بھی تاحیات نااہلی اور دس سال کے لیے سزا یافتہ ہیں۔ ان کی قسمت کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کی فل کورٹ نے ہی کرناہے اور نااہلیت کو آئین کے آرٹیکل 68 ون ایف کے تحت فیصلہ بھی سپریم کورٹ نے ہی کرناہے۔
آئندہ کے الیکشن میں بھرپور الیکشن مہم چلانے کے لیے ملک کی سابقہ پارلیمانی جماعتیں تو الیکشن کے لیے بھاری بھر کم امیدواروں کی چھانٹی کر رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی جماعتوں کے اندرونی ڈھانچے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں جو حقیقی سیاستدانوں کی سبکی ہے۔ یہاں ہمیشہ سے ہی کس جماعت کو لانا اور کس جماعت کو لیول پلینگ فیلڈ مہیا کرنے کا تجربہ 1970ء ‘ 1977ء‘ 1988ء 1990ء‘ 1993ء‘ 1997ء‘ 2002ء‘ 2008ء‘ 2013ء اور 2018ء میں مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ لیکن اس بار 2024ء میں سیاسی نقشہ مکمل طور پر تبدیل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اور انفرادی حکمت عملی بھی طے کی جا رہی ہے اور متبادل راستے بھی تلاش کیے جا رہے ہیں اور یہ سوچ بھی سننے میں آتی ہے کہ اگر ایک مخالف جماعت کے امیدواروں کو کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے میں قانونی دشواری کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے حامی پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے اس حلقے کے ووٹرز ووٹ کے بیلٹ پیپر پر ڈبل مہر لگا کر مسترد کرا دیں گے اور جب ہر پولنگ سٹیشن پر 30 فیصد سے زائد ووٹ مسترد ہو گئے تو بین الاقوامی اور ملکی مبصرین اور میڈیا اس کو منفی انداز میں رپورٹنگ کر کے الیکشن کو غیرجانبدارانہ ہونے پر سوالیہ نشان اٹھا دیں گے۔ ممکن ہے کہ آٹھ فروری تک مزید کوئی سازشی تھیوری سامنے آ جائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وکٹ کی حفاظت کے لیے چاروں طرف نگاہ رکھتی ہوئی ہے‘ میرے تجربے کے مطابق ان حالات میں اردگرد دیکھتے ہوئے الیکشن پُرامن رہیں گے‘ کسی قسم کے دنگافساد کا امکان نہیں کیونکہ پنجاب حکومت اپنے صوبے میں پولنگ کے دن مثالی امن و امان کا مظاہرہ کرے گی اور قومی اسمبلی کی 141 نشستوں اور صوبائی اسمبلی کی 297 نشستوں پر پولنگ پُرامن ماحول میں ہو گی اور پچاس ہزار پولنگ سٹیشنوں پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے قانون کے مطابق ہر ممکن طریقے سے امن و امان برقرار رکھا جائے گا اور سات ہزار حساس ترین پولنگ سٹیشنوں کی مکمل طور پر حفاظت کی جائے گی۔
قائداعظم محمد علی جناح نے سیاست کی خاردار وادی میں 42 سال گزارے اور برصغیر کی سیاست میں باوقار‘ اصول پسند اور مدبر سیاستدان کی حیثیت سے بین الاقوامی سطح پر نام پیدا کیا۔ لالچ اور خوف ان کی لغت میں نہیں تھا۔انہیں کسی قیمت پر نہ جھکایا جا سکتا تھا نہ خریدا جا سکتا تھا۔مگر آج کے کسی سیاستدان میں ایسی ایک بھی خوبی ہو تو قوم کو بتائیں۔زمانہ نئے طریقے اور تجربے کرنا نمود نو کی تلاش میں ہے‘ آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات سے پاکستان نئے نظام کی طرف گامزن ہو جائے گا اور ملک میں پارلیمانی اور صدارتی سسٹم کی آمیزش نظر آئے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں