"KDC" (space) message & send to 7575

صدرِ مملکت کا لیول پلیئنگ فیلڈ کا نظریہ

آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت پہلے جائزے پر عملے کی سطح پر معاہدہ طے پایا گیا ہے جو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے پاکستان کو 70کروڑ ڈالر ملیں گے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے تمام معاشی اہداف حاصل کر لیے ہیں جبکہ آئندہ چند ماہ میں مہنگائی میں کمی کا بھی امکان ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے کہا ہے کہ انتہائی مشکل آئی ایم ایف پروگرام پر ڈٹے رہنے پر پاکستانی حکام تعریف کے مستحق ہیں جبکہ پاکستان میں عالمی مالیاتی فنڈ کے مشن چیف ناتھن پورٹر اور فنڈ کی ریزیڈنٹ نمائندہ ایستھر پیریز نے بھی نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے ملاقات میں آئی ایم ایف کے اہداف پورے کرنے پر پاکستانی حکومت کی کوششوں کو سراہا ہے۔پاکستان گزشتہ چار‘ پانچ سالوں سے شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ نگران حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے مزید فنڈز کے حصول کے لیے نئی حکمت عملی کے تحت مزید مشکل فیصلے بھی لیے جا سکتے ہیں کیونکہ منتخب سیاسی حکومت سیاسی مصلحت کے تحت مشکل فیصلے لینے سے کتراتی ہے۔
ملکی سیاست کی بات کریں تو عمران خان سائفر کیس کے گرداب میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اس کیس میں ان کو کم از کم دو سال کی سزاہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں وہ آئندہ برس آٹھ فروری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ دراصل عمران خان کی اَنا پرستی اور ضد نے انہیں یہ دن دکھایا ہے۔ ان کے اس رویے نے ان کی سیاست کے آگے بند باندھ دیا ہے۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفرکیس کے گواہ کا بیان اور امریکہ سے آنے والے سائفر کا آفیشل نمبر سامنے آ گیا ہے۔ سائفر شعیب حفیظ نے واشنگٹن سے بھیجا تھا۔ بھیجنے والے کا نام نہ لکھنا غیرمعمولی ہے۔ محکمہ خارجہ کے سائفر اسسٹنٹ نے سائفر پر نمبر لگایاتھا۔ وزارتِ خارجہ کے گواہ کا کہنا ہے کہ جس مشین پر سائفر موصول ہوا‘ اس کا نام عدالت میں نہیں بتایا جا سکتا کیونکہ یہ ہائی پروفائل سیکرٹ ہے اور اسے عدالتی کارروائی میں سامنے نہیں لایا جا سکتا۔ عدالت میں یہ بیان دیا گیا کہ آٹھ مارچ کو میل میں واشنگٹن سے سائفر ٹیلی گرام موصول ہوا جسے رجسٹرڈ کرنے کے بعد سائفر سکیورٹی آفیسر کے حوالے کیا گیا۔ عدالت میں سائفرکی کاپی موجود ہے۔ اس سائفر کے حوالے سے اُس وقت کے وزیراعظم نے غیرسنجیدہ رویہ اختیار کیا اور معاملات اتنے سنگین ہو گئے کہ اس سے ریاست کے مفادات کو بھی زک پہنچی۔ اب معاملہ عدالت میں ہے اور اگر انہیں اس کیس میں سزا ہو گئی تو وہ آئندہ الیکشن میں کسی طور حصہ نہیں لے سکیں گے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی تحریک انصاف‘مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا کردار مایوس کن رہا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کے غیر سنجیدہ رویے سے پارلیمانی سسٹم کو بھی نقصان پہنچا۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ جمہوریت اب شاید مفاد پرستی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سیاست دانوں نے جمہوریت کو بس ووٹوں اور الیکشن تک محدود کر دیا ہے۔ الیکشن میں کامیابی کے لیے وہ خوبصورت بیانیے تراشتے ہیں اور کامیاب ہونے کے بعد وہ ان پر عملدرآمد بھول جاتے ہیں۔ کچھ جماعتیں تو اقتدار تک پہنچنے کے غیر جمہوری راستے بھی اختیار کرتی ہیں۔ مقتدرہ کی خوشنودی کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتی ہیں۔ آج بھی کئی سیاسی جماعتیں اسی دائرے میں گھوم رہی ہیں۔
بلوچستان کی بات کریں تو وہاں زیادہ تر وہی سیاستدان الیکشن میں کامیاب ہوتا ہے جس کی اپنے قبیلے پر گرفت مضبوط ہوتی ہے۔ صوبے کی سیاست صوبے کے سرداروں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ جب یہ مفادات کی سیاست کرتے ہیں تو صوبے کے نوجوان ان سے بڑے مایوس ہوتے ہیں۔ ایسی کئی نامور شخصیات موجود ہیں جو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہتی ہیں لیکن ملک کا سیاسی ماحول نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو بھی پاکستان کی عملی سیاست میں حصہ لینا چاہتی تھیں لیکن ان کی والدہ غنویٰ بھٹو نے ان کو یہ کہہ کر سیاست میں قدم رکھنے سے منع کر دیا کہ وہ پہلے ہی سیاست کی وجہ سے مرتضیٰ بھٹو سے محروم ہو چکی ہیں اور وہ اب اپنی بیٹی کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتیں۔ اسی طرح جب پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اوران کے حامیوں نے ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو افتخار محمد چوہدری نے ذاتی عناد کی بنا پر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرکے ایک نئی سیاسی جماعت کی راہ مزید مسدود کر دی۔بڑی مشکل سے ان کی پارٹی کاایک امیدوار چترال سے کامیاب ہوا۔ اگر 2013ء کے انتخابات میں پرویز مشرف چند نشستیں حاصل کرکے قومی اسمبلی کا حصہ بن جاتے تو پارلیمانی نظام مضبوط ہوتا‘ خارجہ پالیسی بہتر انداز میں آگے بڑھتی‘ کرپشن اور منی لانڈرنگ کا سلسلہ ختم ہو جاتا۔ دوست ممالک بھی پرویز مشرف کی پارلیمنٹ میں موجودگی پر اطمینان کا اظہار کرتے لیکن پرویز مشرف ایک ایسے شخص کی اَنا کا شکار ہو گئے جس کو انہوں نے دوسرے ججز کی مخالفت کے باوجود اپنی مدت سے تین ماہ پہلے ہی چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کر دیا تھا۔پھر جب ان کے مس کنڈکٹ پر انہیں وارننگ دی گئی تو موصوف ان کے مخالف کھڑے ہو گئے۔
ملک میں نئے عام انتخابات کا انعقاد ہونے تک نگران حکومتیں ہی انتظامی معاملات چلائیں گی۔ وہ محدود اختیارات کے باوجود ملک کے مفاد میں بین الاقوامی سطح پر معاہدے کر رہی ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ وہ تمام ترقیاتی کام‘ جو گزشتہ حکومت میں مصلحتوں کے شکار ہو چکے تھے‘ چند مہینوں میں مکمل کر کے ریکارڈ مدت میں صوبے کا نقشہ تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ بظاہر یوں نظر آ رہا ہے کہ عوام ملک میں ایسا نظام دیکھنا چاہتے ہیں جس سے ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے۔ اگر ملک میں پارلیمانی نظام کا تسلسل ہی مقصود ہے تو پھر ارکانِ اسمبلیوں کے ترقیاتی فنڈز ختم کر کے ان کی ساری توجہ قانون سازی پر مرکوز کروانی چاہیے۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں ارکان ِپارلیمنٹ کو ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے جاتے۔ اگر نگران حکومت ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ارکانِ اسمبلیوں کے ترقیاتی فنڈز ختم کر دیتی ہے تو اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے خرید و فروخت کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا اور متوسط طبقے کے ارکان بھی آئندہ اسمبلی کے رکن بن سکیں گے۔ اسی طرح ارکانِ اسمبلیوں کو ملازمت کا کوٹہ بھی کرپٹ پریکٹسز کے زمرے میں آتا ہے۔ ارکانِ اسمبلیوں کے ترقیاتی فنڈز پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں جنرل تنویر حسین نقوی‘ چیئرمین تعمیر نو کی سفارش پر ختم کیے جا رہے تھے لیکن چوہدری پرویز الٰہی نے پرویز مشرف کے خصوصی سیکرٹری طارق عزیز مرحوم کی وساطت سے جنرل نقوی کی تجاویز کو نظرانداز کرا دیا۔
آئندہ انتخابات کیلئے جو سیاسی سرگرمیاں اندرونِ خانہ جاری ہیں‘ ان سے مفاہمت کی راہ بھی پیدا ہو رہی ہے۔ صدرِ مملکت نے وزیراعظم‘ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی توجہ خصوصی طور پر لیول پلئنگ فیلڈ کی طرف مبذول کروائی ہے۔ صدرِ مملکت کی لیول پلیئنگ فیلڈ کیلئے وزیراعظم کو خط دراصل عمران خان کو ریلیف دلوانے کی خواہش ہے۔ صدرِ مملکت نے وزیراعظم کو جو خط لکھا ہے‘ شاید وفاقی حکومت میں کوئی ایسی شخصیت موجود نہیں جو دلائل کیساتھ انکے اس خط کا جواب دے سکے جبکہ الیکشن کمیشن نے انکے خط کے متن کو ہی مسترد کر دیا ہے۔لیکن ماضی کی سیاست اور آج کی سیاست میں بڑا فرق ہے۔ نوجوانوں میں شعور پیدا ہو چکا ہے ‘ان میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ صدرِ مملکت کے خیالات‘ انٹرویو اور خطوط کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں