"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات کی تیاریاں

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ57کے تحت دسمبر کے پہلے ہفتہ میں انتخابی شیڈول جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ملک بھر کے 110 اضلاع کیلئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کی تعیناتی30نومبر سے پیشتر کئے جانے کا امکان ہے جبکہ عدلیہ سے ڈی آر اوز اور ریٹرننگ آفیسرز لینے سے متعلق فہرستیں تاحال عدلیہ کی جانب سے موصول نہیں ہو سکیں۔ اگر عدلیہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی استدعا منظور نہ کی تو ڈی آراوز اور ریٹرننگ آفیسرز بیوروکریسی سے لینے پڑیں گے۔چیف الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجہ کا تعلق چونکہ بیوروکریسی سے رہا ہے اور وہ پاکستان کی بیوروکریسی کے کنڈکٹ ‘ شہرت اورکار کردگی سے بخوبی واقف ہیں‘ لہٰذا ان آفیسرز کے ریکارڈ کا مکمل جائزہ لیا گیا ہے اور ان کے سیاسی جھکائو اور ماضی کی حکومتوں کے ساتھ روابط اور سفارش کے تمام پہلوئوں پر بھی غور و فکر کیا گیا ہے۔پنجاب ‘سندھ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی بیوروکریسی کے ریکارڈ کی جائزہ رپورٹیں بھی حاصل کی گئی ہیں ۔ پنجاب کی بیوروکریسی کا مخصوص ذہن اگست2018ء کی عثمان بزدار حکومت نے تبدیل کردیا تھا جب پنجاب کی اہم پوسٹوں کے حصول کیلئے دولت کا سہارا لیا جانے لگا۔ ایسی تمام فہرستوں کا خفیہ ریکارڈ یقینی طور پر سپیشل برانچ اور سول ایجنسیوں کے پاس ہو گا۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے الیکشن کے انعقاد سے پیشتر1976ئمیں بیوروکریسی کے ارکان ‘جن کو ریٹرننگ آفیسرز لگوانا تھا‘ کی چھان بین سول انٹیلی جنس سروس سے کروائی تھی ۔ یہاں تک کہ پریذائیڈنگ آفیسرز کی کلیرنس بھی سپیشل برانچ سے کروائی گئی اور یہ ریکارڈ کا حصّہ ہے اور میرے پاس ان کے کیبنٹ سیکرٹری وقار احمد کا اعترافی بیان بھی موجود ہے جو انہوں نے جنرل ضیا الحق کو بھجوایا تھا۔ وقار احمد نے جو انکشاف کیا وہ حیرت انگیز تھا ‘جس کا میں نے تفصیل سے اپنی سرگزشت میں ذکر کیا ہے اور ریکارڈ کیلئے وقار احمد کا خط بھی منسلک کیا ہے۔
2024ئکے انتخابات پر غیر ملکی مبصرین کی خاص نظر ہوگی ۔ بڑی طاقتوں نے بھی مستقبل کی حکومت کے بارے میں اہم فیصلے کرنے ہیں ؛چنانچہ عام انتخابات میں ان کی بھی خصوصی توجہ ہے۔ امریکہ کی اہم شخصیت رابن رافیل اگلے روز پاکستان پہنچی ہے ‘جو الیکشن کے بارے میں زمینی حقائق جاننے کیلئے پاکستان کی اہم سیاسی شخصیات دانشوروں‘ صحافیوں اور ممکن ہے چیف الیکشن کمشنر سے بھی ملاقات کرے۔ ان کی خصوصی دعوت پر میں نے بھی ان سے ملاقات کی تھی۔ وہ پاکستان کی ہی سفیر ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر انہوں نے ہر موقع پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ میں نے ان کو الیکشن کے روڈ میپ کے بارے میں اپنے تجربہ کی روشنی میں بریف کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا لیول پلینگ فیلڈ سے تعلق نہیں ہے‘ یہ اصطلاح مخصوص ایجنڈے کے تحت غیر ملکی تنظیموں کی طرف سے وارد ہوئی ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ الیکشن سے پیشتر ایسی قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنا آئینی مینڈیٹ آئین کے آرٹیکل218کے تحت پورا کرنا ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ رابن رافیل سے ہر مکتبہ فکر کی شخصیات نے ملاقاتیں کیں۔ ان کا نقطہ نظر پاکستان کے استحکام اور معاشی طور پر فعال ہونے کا تھا۔
عام انتخابات8فروری کو ہورہے ہیں‘ جس سے پاکستانی سیاست کے مستقبل کے خدو خال سامنے آئیں گے۔خاص طور پر نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے سیاسی رہنمائوں کی طرف دیکھ رہی ہیں۔یہ مد نظر رہنا چاہیے کہ جمہوری ممالک میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ چالیس سال سے وہی چہرے حکومتوں اور وزارتوں کا حصّہ ہوں ۔پاکستان میں اب نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر وہ نوجوان قیادت ہو تو زیادہ بہتر ہے‘ چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ چالیس سال سے اس ملک میں ہر پارلیمنٹ اور حکومت کا حصّہ بننے والوں کو ملکی مفاد میں اب خود حکومت اور وزارتوں سے دستبردارہوجانا چاہئے اور اپنی جگہ ان جماعت کے نوجوانوں اور باصلاحیت نئے چہروں کو جگہ دینی چاہئے۔ ماضی کے سیاستدانوں نے پارلیمانی نظام کی روح کے مطابق اپنی کارکردگی نہیں دکھائی اور قوم کو مایوس کیا ۔ آئندہ کے انتخابات نے مستقبل کے سیاسی نظام کے بارے میں اہم فیصلہ کرنا ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں منقسم ہیں اور ہر سیاسی جماعت میں مخالف مائنڈ سیٹ موجود ہے ۔ نوجوانوں کی اکثریت اب سوچ رہی ہے کہ ملک میں بڑی سیاسی جماعتوں کی صورت میں موروثی سیاست قائم ہے ‘ جو یہ سوچتے ہیں کہ اقتدار ان کے بعد ان کے بچوں کی وراثت ہے۔ ان کی سیاست دولت اور طاقت کے گرد گھومتی ہے۔
آنے والے ہفتہ مستقبل کی سیاست کے لیے فیصل کن ثابت ہو گا کیونکہ اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ عمران خان کی جیل ٹرائل کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرے گی اور بعد ازاں نواز شریف کی سزا کے خلاف درخواستوں کا اہم فیصلہ بھی ہونا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں ضمانت کی درخواست پر بھی فیصلہ صادر کرنا ہے۔ دراصل تحریک انصاف کے اہم پالیسی ساز رہنما آئندہ انتخابات کے بارے میں حالات و واقعات کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔ایسی ہی صورتحال 5جولائی 1977ء کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو پیش آئی تھی۔ ان کا ٹرائل بھی چل رہا تھا اور ان کی پارٹی نومبر1979ء کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے بھی سرگرم تھی اور ان کی متبادل قیادت‘ جس کی رہنمائی بیگم نصرت بھٹو کر رہی تھیں‘ پارٹی کے ٹکٹ ایوارڈ کررہی تھی ‘جبکہ ان کی پارٹی تقسیم ہوچکی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہونے والی اہم شخصیات مولانا کوثر نیازی اور غلام مصطفی جتوئی نے پیپلز پارٹی سے ملتے جلتے ناموں کی پارٹیاں بنا کر پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ وہی تحریک انصاف سے جدا ہونے والی اہم شخصیات کر رہی ہیں۔ اس لئے جب نازک ترین حالات میں بیگم نصرت بھٹو نے الیکشن میں حصہ لینے کا عزم کررکھا تھا تو اب تحریک انصاف کو بھی متبادل قیادت کو سامنے لانے میں کیا حرج ہے ؟ جیل یاترا ہر سیاسی رہنما کی روایت رہی ہے‘ لہٰذا الیکشن شیڈول جاری ہونے سے بیشتر تحریک انصاف کو ایسی متبادل قیادت سامنے لانی چاہئے جس سے پارٹی ٹکٹ ایوارڈ کرنے میں آسانی اور الیکشن مہم جاری رکھ کر عوام کی توجہ حاصل کی جاسکے۔
سابق امریکی سفارت کار رابن رافیل کی ملاقات کے دوران بعض شرکا نے یہ تاثر دیا کہ ملک کی بعض سیاسی جماعتیں اپنا تعلق مقتدرہ کے اعلیٰ حلقوں سے جوڑ کر پاکستان کے حساس ترین حلقے کو متنازع بنا رہی ہیں جبکہ اعلیٰ مقتدر حلقے ملک کی معیشت کی بحالی کیلئے بین الاقوامی طاقتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اب جبکہ انتخابات نزدیک آرہے ہیں تو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علما و مشائخ کو جی ایچ کیو مدعو کر کے ان کو پاکستان کی سالمیت اور وحدت کے بارے میں بریف کیا۔ اسی انداز میں پاکستان کی اہم سیاسی جماعتوں کو بریف کرتے ہوئے ان کو مفاہمت کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کو مشروط شرائط کو نظر انداز کردینا چاہیے اور ایک ہی ایجنڈا پر قائم ہونا چاہیے کہ آئندہ الیکشن میں مفاہمت‘ رواداری‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق اورپاکستان کو درپیش خطرات اور ملکی حیثیت کے بارے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے۔ پاکستان کے بارے میں جن سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا اور ولاگرز کا سہارا لیا ہوا ہے ان سے لاتعلق رہنا چاہیے اور پاکستان آرمی کے بارے میں جنہوں نے منفی روّیہ اپنا رکھا ہے وہ بھی ان کے سامنے رکھ کر ان کو آئینہ دکھایا جائے اور یاد رکھا جائے کہ مفاہمت اس وقت پاکستان کی وحدت و سالمیت کا اہم ترین تقاضا ہے(جاری)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں