"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی کھینچا تانی اور الیکشن کمیشن کی تیاری

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے دورۂ متحدہ عرب امارات کے دوران دونوں ملکوں کے مابین 20 سے 25ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے معاہدات طے پا گئے ہیں جبکہ پاکستان اور کویت کے مابین بھی پاکستان کے مختلف شعبوں بشمول فوڈ سکیورٹی‘ زراعت‘ پن بجلی‘ پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی اور کان کنی کی سرگرمیوں میں تعاون کے لیے کان کنی فنڈ کے قیام‘ ٹیکنالوجی زونز ڈویلپمنٹ اور مینگروو کے تحفظ سمیت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے 7 معاہدوں اور ثقافت اور آرٹ‘ ماحولیات اور پائیدار ترقی کے شعبوں میں تعاون کے لیے 3 مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے دورۂ کویت کے دوران کویت کے فرسٹ ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر داخلہ شیخ طلال الخالد الاحمد الصباح سے ملاقات کی۔ملاقات میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔دونوں رہنماؤں نے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور برادرانہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور برادرانہ تعلقات کو باہمی طور پر فائدہ مند اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کر کے مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ ان معاہدوں سے معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ان معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنانا اب حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جنرل سید عاصم منیر ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے ساتھ ساتھ معاشی محاذ پر بھی کافی سرگرم ہیں۔ اگر افواجِ پاکستان کی ملکِ عزیز کے لیے خدمات کا تذکرہ کیا جائے تو ملک کو جب بھی کوئی مشکل پیش آئی‘ پاک فوج نے اس مشکل وقت میں ملک کو سہارا دیا۔ ملک کو درپیش مخدوش معاشی حالات میں بھی افواجِ پاکستان کی اعلیٰ قیادت آگے بڑھی اور عوام کو حوصلہ دیا۔ ڈیفالٹ کے شکار ملک کو معاشی استحکام کی جانب گامزن کرنے میں جنرل سید عاصم منیر کی خصوصی کاوشیں شامل ہیں۔ ان کی کاوشوں سے دوست ممالک نے ملک میں سرمایہ کاری کی حامی بھری۔ عسکری قیادت کی ہدایات پر ڈالر مافیا کے خلاف کیے گئے کریک ڈاؤن سے روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے جس سے پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی اور عوام کو ریلیف ملا۔ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی انہی کاوشوں میں شامل ہے۔ جنرل سید عاصم منیر کی خصوصی کوششوں سے پاکستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی واضح بہتری آئی ہے۔ پاک آرمی اُن کی قیادت میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے بھی کوشاں ہے۔ یعنی اس وقت ملک ہر لحاظ سے بہتری کی جانب گامزن ہے اور عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت اسے مزید بہتری کی طرف لے کر جائے گی۔ملک میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ممالک بھی عام انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی طرف دیکھ ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے بعد صدرِ مملکت اور چیف الیکشن کمشنر کی باہمی مشاورت سے 8فروری 2024ء کو ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا‘ جس کے پیشِ نظر الیکشن کمیشن کو دسمبر کے دوسرے ہفتہ سے پیشتر الیکشن شیڈول جاری کرنا ہو گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ ووٹرز فہرستوں کی چھپائی کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے۔ ووٹرز کی تصاویر کے بغیر فہرستیں دسمبر کے پہلے ہفتے میں ریٹرننگ افسران کو بھجوا دی جائیں گی جو کہ کاغذاتِ نامزدگی کے اجرا اور جانچ پڑتال میں استعمال ہوں گی۔ انتخابی مہم کے لیے امیدواروں کو بھی یہی فہرستیں ملیں گی۔ ووٹرز کی تصاویر والی فہرستیں صرف پریذائیڈنگ افسران کو مہیا کی جائیں گی جن کو ریٹرننگ افسران اپنی نگرانی میں پولنگ بیگوں میں رکھوا ئیں گے اور یہ پولنگ بیگ سیل کر دیے جائیں گے۔ اس کے برعکس سیاسی جماعتوں نے ابھی تک الیکشن کے حوالے سے باضابطہ انتخابی سرگرمیوں کا آغاز نہیں کیا ہے اور ان کی طرف سے انتخابات میں چند ماہ کی مزید تاخیر کی تجاویز دی جا رہی ہیں حالانکہ الیکشن کمیشن جس تیزی سے نئی حلقہ بندیوں کا کام مکمل کر چکا ہے اور انتخابات کے معاملات کو جس سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے‘ اس سے انتخابات میں تاخیر کا کوئی جواز نظر نہیں آ رہا۔ ہاں افغانستان کی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں میں سکیورٹی خدشات موجود ہیں‘ بھارت بھی اس حوالے سے کوئی چال چل سکتا ہے لیکن پاک فوج اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔
ملک میں آئندہ عام انتخابات جس غیرمعمولی ماحول میں ہونے جا رہے ہیں‘ ایسے ماحول میں سیاسی جماعتوں کو اب اپنی تمام تر توجہ انتخابات کی طرف مرکوز کرنی چاہیے۔ ملک میں عام انتخابات کے تقریباً تمام مراحل طے ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور دوسرے ریاستی ادارے پوری تندہی کے ساتھ انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور بہرصورت اپنی اس آئینی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے سیاسی قیادت کو الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے اور اپنی اپنی انتخابی سرگرمیاں الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے رہنما اصولوں کے مطابق شروع کر دینی چاہئیں۔ موجودہ ملکی مسائل کا حل عام انتخابات کے انعقاد میں ہی پوشیدہ ہے۔عام انتخابات کو لے کر جو دوسرا اہم سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں ناکام ہونے والی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کو متنازع بنانے اور اس آڑ میں ملک میں احتجاجی مظاہروں کی کوششیں کیں تو اس صورتحال میں بیرونی سرمایہ کاری کو کیسے راغب کیا جا سکے گا۔ اگر ان انتخابات کے بعد بھی ملک میں 2013ء کے انتخابات کے بعد والی صورتحال پیدا ہو گئی تو معاشی ترقی کے خواب کیسے پورے ہوسکیں گے۔
ملک کو درپیش حالات کے پیش نظر ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت ملک کے وسیع تر مفاد میں عام انتخابات کے نتائج کو من و عن تسلیم کرنے کے لیے ایک میثاق پر متحد ہو۔ عام انتخابات کا شفاف انعقاد یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران کو واضح وارننگ دے دی ہے۔ پولنگ کے دن انتخابی نتائج کے حوالے سے سب سے اہم دستاویز فارم 45اور 46ہی ہوتے ہیں‘ اس مرحلے کو مکمل طور پر فول پروف بنانے کی تمام تر تیاری کر لی گئی ہے۔ مزید یہ کہ ملکی اور غیرملکی مبصرین‘ جن کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہو گی‘ بھی الیکشن کی اس کارروائی کا مشاہدہ کریں گے جبکہ میڈیا بھی لمحے لمحے کی خبر بریک کررہا ہو گا‘ ایسے سرگرم ماحول میں کوئی انتخابی بے قاعدگی یا دھاندلی کیونکر ممکن ہو سکے گی‘ لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرتے ہوئے انہیں ابھی سے آگاہ کر دینا چاہیے کہ وہ انتخابات کو متنازع بنانے کی کوئی کوشش نہ کریں۔ بھارت میں انتخابی نتائج کو متنازع بنانا انڈین الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پھر بھی کوئی سیاسی اکائی جان بوجھ کر الیکشن نتائج کو متنازع بنانے کی کوشش کرتی ہے تو پھر وفاقی حکومت اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 186کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان کی رائے حاصل کرنے کی مجاز ہے۔تمام سیاسی اکائیوں کو جان لینا چاہیے کہ ان کی الیکشن کو متنازع بنانے کی کوشش یا احتجاجی مظاہروں سے ملک میں آنے والی بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہو گی۔جہاں تک دہشت گردی کے خطرات کا سوال ہے تو الیکشن کمیشن عام انتخابات کا پُرامن انعقاد یقینی بنانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت وزارتِ داخلہ کے ذریعے سکیورٹی اہلکاروں کی خدمات مستعار لینے کے لیے باقاعدہ ریفرنس بھیج چکا ہے۔ سرحدوں کی صورتحال اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر عسکری قیادت الیکشن کمیشن کے اس ریفرنس پر غور و خوض کرنے کی مجاز ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں