"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کی پراسراریت

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن‘ الیکشن ایکٹ کی دفعات 207‘ 208 اور 209‘بشمول الیکشن رولز کی دفعہ 158 اور 159 کے تحت مکمل ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی کے کس آئین کے تحت ہوئے اس کی باریکیوں کو جاننے کے لیے حقائق یوں ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد 2017ء میں ہوا تھا جس کی مدت اس کے آئین کے مطابق چار سال تھی جو 14 جون 2021ء کو ختم ہونا تھی۔ پارٹی کو 24 مئی 2021ء کو انٹرا پارٹی الیکشن کے بروقت انعقاد سے متعلق یاددہانی کرائی گئی۔ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر مورخہ 7 جولائی 2021ء کو پارٹی کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا۔ نوٹس کے جواب میں پارٹی نے بذریعہ وکیل انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کے لیے ایک سال کی توسیع طلب کی اور جواز یہ پیش کیا کہ کورونا کی وجہ سے انٹرا پارٹی الیکشن کروانا ممکن نہیں ہے‘ لہٰذا تحریک انصاف کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے مورخہ 13 جون 2022ء تک منظور کر لی۔ پارٹی کو بذریعہ خطوط بار بار یاددہانی کرائی گئی کہ وہ توسیع شدہ معیاد کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن کو یقینی بنائے۔ مورخہ 10 جون 2022ء کو تحریک انصاف کے چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پیش ہو کر دو خطوط پیش کیے اور آگاہ کیا کہ پارٹی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرا لیا ہے ‘لیکن ساتھ ہی انہوں نے اپنے پارٹی آئین 2019ء کے آرٹیکل 5 کی شق 5 میں ترمیم بھی جمع کرا دی جس میں ووٹنگ سمیت الیکٹورل کالج کا طریقہ کار بھی بدل دیا گیا۔ تحریک انصاف کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد ‘ ان میں پائی جانے والی خامیوں سے متعلق مورخہ 27 جون 2022ء اور 4 اگست 2022ء کو پی ٹی آئی کو مطلع کیا گیا اور مذکورہ کاغذات مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اعتراضات اور خامیوں پر توجہ دینے کی بجائے 14 ستمبر 2022ء کو تحریک انصاف نے ابہام پیدا کر کے پارٹی کا نیا آئین 2022ء پیش کر دیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مورخہ 13 اکتوبر 2022ء کو بذریعہ خط پارٹی کو دوبارہ یاددہانی کرائی کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعتراضات دور کرنے کے بعد مطلوبہ دستاویزات جمع کرائے۔ مزید براں الیکشن کمیشن نے 30 دسمبر 2022ء کو بذریعہ خط تحریک انصاف سے آئین 2019ء میں ترمیم اور نئے آئین 2022ء کے حوالے سے مزید وضاحت بھی طلب کی۔ اس کے بعد یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے روبرو سماعت کے لیے مورخہ 28 مارچ 2023ء کو مقرر کیا گیا۔
سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان اور مجاز نمائندہ جمال اکبر انصاری پیش ہوئے اور انہوں نے جون 2022ء میں ہونے والے انٹرا پارٹی الیکشن کے ساتھ ساتھ نیا پارٹی آئین 2022ء اور 2019ء کے آئین میں انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق ترامیم‘ جن کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کروایا گیا تھا‘ واپس لے لیں۔ اس سلسلے میں اپنا بیانِ حلفی بھی جمع کروا دیا۔ نتیجتاً تحریک انصاف اپنے آئین 2019ء کے مطابق دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند ہوگئی۔تاہم وقت آنے کے باوجود پارٹی نے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے پر کوئی توجہ نہیں دی ‘جو کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 208 اور 209 کی خلاف ورزی تھی۔ اس سلسلے میں مذکورہ پارٹی نے دوبارہ سماعت کے لیے درخواست دائر کی جو کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے منظور کرتے ہوئے 13 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کی اور سماعت کے بعد محفوظ فیصلہ 23نومبر 2023ء کو سنایا گیا اور تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کروانے کی ہدایت دی۔
الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت ہر سیاسی جماعت اپنے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی پابند ہے جو مذکورہ پارٹی نے نہیں کروائے‘ اس لیے اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق پارٹی کا کوئی مجاز عہدیدار نہیں تھا‘ لہٰذا الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کو 20 دن میں انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا حکم الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209کے مطابق دیا گیا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب قومی انتخابات 8 فروری کو ہو رہے ہیں اور الیکشن شیڈول بھی 14 دسمبر کو متوقع ہے اور پارٹی کے انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کی درخواست الیکشن کمیشن کے سامنے زیرالتوا ہے ‘ تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اکبر ایس بابر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں بے ضابطگی کے پیش نظر الیکشن کمیشن میں درخواست جمع کرائی جائے گی۔انٹر ا پارٹی الیکشن نے اس کی آئینی اور جمہوری حیثیت کے بارے میں سوالات کھڑے کردیے۔ تحریک انصاف کے آئین بھی متضاد ہیں‘ جو کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 205 کے مطابق بھی نہیں اور دفعہ 203 سے بھی متصادم ہیں۔بہرحال اکبر ایس بابر جو اعتراضات اٹھائیں گے اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے۔
اب چونکہ قومی انتخابات قریب تر ہیں بادی النظر میں تحریک انصاف کا انٹرا پارٹی الیکشن قواعد و ضوابط میں نرم پالیسی اختیار کرتے ہوئے منظور کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے لیول پلینگ فیلڈ کی پالیسی اختیار کرنی ہے۔چیف الیکشن کمشنر راجہ سلطان سکندر نے واضح کر دیا ہے کہ انتخابی شیڈول 54 روز پہلے جاری ہوگا۔ حلقہ بندیاں یکم دسمبر کو جاری کی چکی ہیں اور تازہ انتخابی فہرستیں پرنٹ ہو چکی ہیں۔ انتخابی کمیشن کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کی عام نشستوں کے 266 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقے ہوں گے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272 تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستیں 577 تھیں۔ مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342 نشستیں کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں اور اس فرق کی وجہ ہے سابقہ فاٹا کا کے پی میں انضمام۔ 2018ء میں فاٹا کی آزاد حیثیت تھی یعنی یہ قبائلی علاقہ وفاق کے ماتحت تھا، جہاں سے قومی اسمبلی کی 12 نشستیں تھی۔ 25ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا اور پھر اس کی 12 نشستیں کم کر کے چھ کر دی گئیں اور وہ خیبر پختونخوا کے کوٹے میں شامل کر دی گئیں۔یوں کے پی کا قومی اسمبلی کا کوٹہ 39 نشستوں سے بڑھ کر 45 تک پہنچ گیا مگر قومی اسمبلی کی مجموعی نشستیں 342 سے کم ہو کر 336 رہ گئیں۔اب باقی سب کچھ بھی اپنے وقت پر ہو گا اور توقع ہے کہ الیکشن کمیشن 16 دسمبر کو الیکشن شیڈول کا اعلان کرے گا‘ جبکہ میری تجویز ہے کہ الیکشن شیڈول 15 یا 14 دسمبرکو جاری کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 16 دسمبر سانحہ مشرقی پاکستان کی حیثیت سے ملک میں سیاہ ترین دن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں