"KDC" (space) message & send to 7575

ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس اور سابق چیف جسٹس انوار الحق

پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ تو پانچ جولائی 1977ء کو ہی ہو چکا تھا جب 90روز میں انتخابات کا وعدہ کرتے ہوئے 8اکتوبر 1977ء کو ملک میں عام انتخابات کا الیکشن شیڈول جاری کیا گیا تھا۔ ملک کی انتخابی تاریخ میں وہ پہلا موقع تھا جب قومی اتحاد کے رہنماؤں نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق سے مطالبہ کیا کہ ان انتخابات میں بیورو کریٹس کے بجائے آرمی کے حاضر سروس افسران کو بطور ریٹرننگ افسر تعینات کیا جائے لہٰذا تب ایک آرڈر کے تحت ملک بھر میں آرمی افسران کو بطور ریٹرننگ افسر تعینات کر دیا گیا۔ چونکہ یہ افسران عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء اور الیکشن رولز سے نابلد تھے لہٰذا الیکشن کمیشن کے افسران نے ان کو الیکشن کے حوالے سے باقاعدہ ٹریننگ دی۔ میں اُن دنوں سرگودھا ڈویژن کا ریجنل الیکشن کمشنر تھا جہاں اُس وقت 28قومی اسمبلی کی نشستیں تھیں‘ لہٰذا قومی اسمبلی کی ان 28نشستوں کے لیے 26 آرمی افسران کو بطور ریٹرننگ افسران تعینات کرنے کیلئے خدمات مستعار لی گئیں۔ میری ٹیم نے سرگودھا ڈویژن کے ہر ضلع میں تعینات ہونے والے ریٹرننگ افسران کو ضلعی سطح پر الگ سے بھی ٹریننگ دی تھی۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی 60نشستوں پر بھی میجر اور کیپٹن رینک کے افسران کو بطور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسر تعینات کیا گیا تھا۔ ضیاء الحق نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء میں درجنوں ترامیم کرتے ہوئے اس میں کئی نئی شقیں شامل کر لیں جس کے تحت امیدواروں کو ریٹرننگ افسران کے روبرو پیش ہو کر یہ حلف دینے کا پابند بھی بنایا گیا تھا کہ وہ ''نظریہ پاکستان کا حامی اور پاکستان کا وفادار ہے‘‘۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو نے لاڑکانہ کے ریٹرننگ افسر‘ جو کرنل رینک کے افسر تھے‘ کے سامنے پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھایا اور بعد ازاں یہی حلف نامہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے ایک اہم دستاویز کی صورت اختیار کر گیا اور کاغذاتِ نامزدگی کا اہم جزو قرار پایا۔
بعد ازاں 8 اکتوبر 1977ء کے انتخابات ملتوی کرتے ہوئے عام انتخابات کیلئے 18 نومبر 1979ء کی تاریخ مقرر کر دی گئی جو 4اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے گئے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ عدالتی روایات کے برعکس چلتا رہا۔ ابتدا میں‘ غالباً 18یا 19مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے ذوالفقار علی بھٹوکو سزائے موت دینے کے احکامات پر دستخط کیے جبکہ یہ مشہور مقدمہ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس آفتاب حسین شیخ نے لکھا جو غالباً 700 صفحات پر محیط تھا۔ جسٹس آفتاب حسین شیخ سے میرے دیرینہ تعلقات تھے لیکن انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کے بارے میں کبھی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ماسوائے اس کے کہ یہ فیصلہ سنائے جانے کے بعد ان کو تین ہزار سے زائد دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے جو انہوں نے اپنے ذاتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیے۔ جسٹس (ر) مولوی مشتاق حسین قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی تھے لہٰذا میرا ان سے ایک رابطہ قائم رہا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی دشمنی اور ضیاء الحق کے سحر میں مبتلا تھے۔ دراصل الیکشن کمیشن کی ساری مشینری تب ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت پر اُتر آئی تھی یعنی الیکشن کمیشن کا رویہ اور طریقہ کار کسی بھی طرح غیرجانبداری کے زمرے میں نہیں آتا تھا۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری اے زیڈ فاروقی انتخابی دھاندلی کے کمیشن کے اہم ممبر تھے جس کے سربراہ بریگیڈیئر اسلم تھے‘ جن کا ذکر بھٹو نے اپنی کتاب ''اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی لیکن وہاں بھی لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہا۔ اتفاق سے پاکستان کے تب کے چیف جسٹس شیخ انوار الحق کے میرے خاندان کے ساتھ دیرینہ تعلقات تھے جو کہ 1945ء سے چلے آ رہے تھے جب شیخ انوار الحق ضلع حصار کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اسی راہ و رسم کی بنیاد پر اُن سے میرا گہرا تعلق رہا۔ میں نے غیررسمی طور پر سابق چیف جسٹس شیخ انوار الحق سے 23 مارچ 1979ء اور بعد ازاں 30 مارچ 1979ء کو خصوصی ملاقاتیں بھی کی تھی۔ انہی ملاقاتوں میں جب میں نے اُن سے ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں مسٹر بھٹو کو اپنے دفاع میں تین دن دیے گئے تھے‘ وہ ان تین دنوں میں خارجہ پالیسی‘ بین الاقوامی سازشوں‘ مڈل ایسٹ کی سیاست اور ضیاء الحق کے خلاف بولتے رہے اور مقدمے کے تکنیکی پہلوؤں پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ علاوہ ازیں اُس وقت یحییٰ بختیار کا بطور وکیل چناؤ بھی غلط تھا کیونکہ وہ فوجداری معاملات سے بالکل نابلد تھے۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ میں ان کا مقدمہ لڑنے کیلئے ملک کے ممتاز ماہرِ قانون بیرسٹر انور بار ایٹ لاء اور اعجاز بٹالوی نے اپنی خدمات پیش کی تھیں‘ لیکن بقول سابق چیف جسٹس شیخ انوار الحق اُن کی پیشکش کو نظرانداز کر دیا گیا۔ اسی طرح حیدر آباد کے مایہ ناز وکیل غلام علی میمن کو بھی یحییٰ بختیار نے آگے نہیں بڑھنے دیا اور خود نظرثانی اپیل میں ذوالفقار علی بھٹو کو کامیابی نہ دلا سکے۔ اگر سپریم کورٹ میں دائر نظرثانی اپیل میں ٹھوس دلائل دیے جاتے تو ممکن تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت عمرقید میں تبدیل ہو جاتی۔
سابق چیف جسٹس شیخ انوار الحق سے ہونے والی اسی ملاقات کے دوران ان کے سکیورٹی گارڈ نے آکر انہیں بتایا کہ پیپلز پارٹی کی 30 سے زائد خواتین پارٹی کے جھنڈے اٹھائے آ رہی ہیں اور اُن سے ملاقات کی خواہش مند ہیں۔ انہوں نے ان سب خواتین کو اپنی رہائش گاہ 71 ہارلے سٹریٹ کے اندر بلا لیا اور لان میں بیٹھا کر ٹھنڈے شربت سے ان کی خاطر تواضع کی اور صرف ایک ہی جملہ کہا کہ ''دُعا کریں‘ انصاف ہی ہوگا‘‘۔ اُن دنوں پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال خراب نہیں تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی رہائش گاہ کے باہر صرف ایک ہی سکیورٹی اہلکار تعینات ہوتا تھا۔ اسی ملاقات کے دوران شیخ انوار الحق نے بتایا تھا کہ انہیں اس مقدمے کے حوالے سے دھمکی آمیز خطوط موصول ہوتے رہے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں تھی اور انہوں نے یہ سارے خطوط اپنے سیکرٹری عاشق حسین اور رجسٹرار لطیف کو بھجوا دیے تھے۔
اب‘ جبکہ ذوالفقار علی بھٹوصدارتی ریفرنس زیر سماعت ہے جو آئین کے آرٹیکل 186کے تحت 2012ء سے التوا میں تھا۔ 12دسمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ اس صدارتی ریفرنس پر سماعت بھی کر چکا ہے جس میں جسٹس سردار طارق مسعود‘ جسٹس منصور علی شاہ‘ جسٹس یحییٰ آفریدی‘ جسٹس امین الدین خان‘ جسٹس جمال خان مندوخیل‘ جسٹس محمد علی مظہر‘ جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بھٹوکیس میں فیصلہ سناچکی اور نظرثانی بھی خارج ہوچکی‘ ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی‘ ایک معاملہ ختم ہوچکا ہے‘ عدالت کو یہ توبتائیں کہ اس کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟ فیصلہ برا تھا توبھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے‘ بدلا نہیں جاسکتا‘ یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ تو سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کے تناظر میں لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مشتاق حسین اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان شیخ انوار الحق کے فیصلے کا ازسرِنو جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے آئندہ کے لیے نئی روایت قائم ہو گی اور عدالتوں کی غیر جانبداری کا تشخص بھی مزید واضح ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں