"KDC" (space) message & send to 7575

عام انتخابات 8فروری کو ہی ہوں گے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کی درخواست پرآر اوز کی تعیناتی منسوخ کرنے کا لاہور ہائیکورٹ کا حکم معطل کردیاہے اور اس حوالے سے مزید کارروائی سے بھی روک دیا ہے۔گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ یہ اپیل دائر کیے جانے سے قبل چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی تھی اور انہیں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا تھا۔ اس ملاقات میں اٹارنی جنرل کے ساتھ ساتھ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شریک ہوئے تھے۔ اس سے قبل ملک میں عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے اُس وقت غیریقینی صورتحال پیدا ہو گئی تھی جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ روک دی تھی‘ جبکہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ الیکشن ایکٹ 2017ء کے الیکشن پلان کا لازمی جزو ہے۔ یہ روایت اور طریقہ کار عوامی نمائندگی ایکٹ 76ء میں بھی درج تھا۔ الیکشن کمیشن کے اس اقدام کے پیچھے لاہور ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ تھا جس میں لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواست پر 1011 بیوروکریٹس کی ریٹرننگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران سمیت دیگر انتخابی عملے کے طور پر تعیناتی کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو معطل کردیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی ٹریننگ بروقت شروع نہیں ہو سکے گی تو انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ ٹریننگ کے بعد الیکشن کمیشن شیڈول کا اعلان کرتا ہے اور اس سلسلے میں کم از کم 54 دن کا وقت درکار ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر کی جانب سے عائد انتخابات ملتوی کرنے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن پر عائد کردہ الزامات عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہیں۔ انتخابات ملتوی نہیں ہو رہے اور الیکشن کمیشن نے 8فروری کو انتخابات کروانے کے تمام انتظامات مکمل کر رکھے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز کا تقرر اور ان کی ٹریننگ بھی شروع کر دی گئی تھی‘ جس کا مقصد یہ تھا کہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہوتے ہی کاغذاتِ نامزدگی کا اجرا اور درخواستیں وصول کی جا سکیں مگر پی ٹی آئی کی طرف سے ڈی آر اوز اور آر اوز کے تقرر کو چیلنج کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 50 (ون)( بی) اور 51 (ون) کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے عدالت سے انہیں غیر آئینی قرار دینے کی درخواست بھی کی تھی۔ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں الیکشن کمیشن کو کسی بھی طور ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور حکم کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول سے متعلق تمام قانونی اور انتظامی کارروائی بھی معطل کر دی تھی جس سے 8فروری کو عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔ جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بینچ کا آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی کے حوالے سے فیصلہ 18دسمبر یا 19دسمبر تک سامنے آ نے کا امکان تھا اور اُسی فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 50اور 51کے تحت ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کا از سر نو گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنا تھا۔لیکن اب چونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آر اوز کی تعیناتی منسوخ کرنے کا لاہور ہائی کورٹ کا حکم معطل کردیا ہے‘ تو یہی نظر آ رہا ہے کہ الیکشن شیڈول اور انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے زیادہ تاخیر کا مسئلہ سر نہیں اٹھائے گا۔چونکہ انتخابی شیڈول 54 دن کا ہوتا ہے‘ اس لیے اگر عام انتخابات 8فروری کو ہونے ہیں تو الیکشن کمیشن کوآج یا کل تک الیکشن شیڈول جاری کرنا ہوگا۔ انتخابی شیڈول کے مطابق 17 دسمبر پہلا دن اور 8 فروری 54 واں دن بنتا ہے۔
جہاں تک عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کا تعلق ہے تو یہ روایت 1988ء کے قومی انتخابات سے شروع ہوئی تھی۔ اس دوران جتنے بھی عام اور ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوتا رہا‘ ریٹرننگ افسران کے لیے جوڈیشل افسران کی خدمات ہی حاصل کی گئیں۔ 2013ء کے انتخابات کے موقع پر اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے طنزیہ ریمارکس دیتے ہوئے اسے ریٹرننگ افسران کا الیکشن قرار دیا تھا۔ ان کے یہ ریمارکس تب پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنے رہے۔ بادی النظر میں تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر کو ریٹرننگ افسران کے تقرر کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائرہی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ الیکشن کمیشن گزشتہ کئی مہینوں سے چاروں ہائی کورٹس کے رجسٹرار صاحبان سے تحریری طور پر استدعا کرتا رہا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے جوڈیشل افسران کی بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران خدمات فراہم کی جائیں۔ مگر ضلعی عدالتوں میں کیسز کے بیک لاگ کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی اس درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس سرکاری محکموں سے انتخابی عہدیداروں کی تعیناتی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس لیے لامحالہ الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے بیورو کریسی سے قابل اور ایماندار افسروں کا بطور ڈی آر اوز اور آر اوز تقرر کر دیا جسے تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ تحریک انصاف کی اس درخواست کے حوالے سے آنے والے فیصلے کے تناظر میں یہ کہنا بے جا نہ تھا کہ اس سے 8فروری کو عام انتخابات کا انعقاد ناممکن نظرآ رہا تھا۔ لیکن چونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا ملک میں 8فروری 2024ء کو عام انتخابات کے ہر صورت انعقاد کے حوالے سے فیصلہ پہلے سے ہی موجود ہے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کے بعد جو فیصلہ آیا ہے‘ اس سے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عام انتخابات التوا کا شکار نہیں ہوں گے اور یہ 8فروری کو ہی منعقد ہوں گے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید‘ بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے اور سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو نوٹس جاری کردیا ہے۔اس کیس میں سابق فوجی افسران کو فریق بنانے سے تاریخ کا رُخ ہی بدل جائے گا۔ دسمبر 1969ء میں ایم انور بار ایٹ لاء نے سابق صدر ایوب خان کے بارے میں کچھ ایسے کلمات کہہ دیے تھے کہ انہیں فوراً چپ کروا دیا گیا۔ لہٰذااس کیس کی سماعت کے دوران ایک نئی تاریخ محفوظ ہوتی دکھائی دے گی۔اس سے ہمارے ادارے مزید غیر جانبدار‘ مضبوط اور فعال ہوتے نظر آئیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں