"KDC" (space) message & send to 7575

وکلا تنظیموں کے تحفظات غیرضروری ہیں

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 8 فروری 2024ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کا شیڈول جاری ہوتے ہی ان انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مندوفاقی و صوبائی نگران حکومتوں کے وہ وزراجو اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں‘ عام انتخابات 2024ء میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ ان کے کاغذاتِ نامزدگی ریٹرننگ افسران کی سطح پر ہی مسترد کیے جانے کا امکان ہے۔ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت وفاقی یا صوبائی نگران کابینہ کا کوئی بھی وزیر یا ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔البتہ وہ عام انتخابات کے 60روز بعد اُن خالی سیٹوں ‘ جو دو حلقوں سے الیکشن جیتنے والے امیدوار خالی کریں گے‘پر منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔ نگران حکومت کے اراکین عام انتخابات کے بعد مارچ میں منعقد ہونے والے سینیٹ الیکشن میں بھی حصہ لے سکتے ہیں لیکن اس مقصد کے لیے انہیں کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا پڑے گی۔ اس طرح مگر ان کی غیرجانبداری پر حرف آنے کا امکان ہے کہ نگران حکومت کے وزیر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے متعلقہ پارٹی سے میچ فکس کر رکھا تھا۔اس صورتحال سے بچنے کے لیے ان کے پاس آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینے کی آپشن بھی موجود ہو گی۔
بلوچستان کے نگران صوبائی وزیر کھیل و ثقافت نوابزادہ جمال رئیسانی اور نگران مشیر معدنیات عمیر محمد حسنی نے اپنی اپنی وزراتوں سے اسی مقصد کے لیے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند تھے۔نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان علی مردان ڈومکی نے دونوں حضرات کا استعفیٰ قبول کرلیا تھا۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ سردار سرفراز بگٹی نے بھی 13دسمبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جسے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے منظور بھی کر لیا۔ وہ عام انتخابات میں ڈیرہ بگٹی سے حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں جب کہ میری اطلاع کے مطابق ان کے کاغذاتِ نامزدگی کو نواب اکبر بگٹی مرحوم کے پوتے اور طلال بگٹی کے صاحبزادے چیلنج کرسکتے ہیں۔ یہ پابندی صرف عام انتخابات تک کے لیے ہی ہے‘ عام انتخابات کے بعد نگران وزرا کے لیے کسی بھی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے حوالے سے کوئی قدغن نہیں ہے۔ اپنی کارکردگی کی بنا پر وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے یا کسی بھی قبولِ عام جماعت کا حصہ بن کرضمنی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔
ملک کی پانچ وکلاء تنظیموں پاکستان بار کونسل‘ سپریم کورٹ بار کونسل‘ پنجاب بار کونسل‘ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور خیبر پختونخوا بار کونسل کا حلقہ بندیوں کے حتمی گزٹ نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد الیکشن کمیشن کے سربراہ سکندر سلطان راجہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بلاوجہ ہے کیونکہ حلقہ بندیوں کے خلاف مختلف ہائی کورٹس میں زیرسماعت مقدمات اور ان کے فیصلوں کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی توثیق کر دی تھی۔ یہ فیصلہ 6جون 2018ء کے اہم ترین فیصلے کو پیش نظر رکھ کر سنایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ 6جون 2018ء کا فیصلہ اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار نے سنایا تھا۔ اس فیصلے میں انہوں نے الیکشن کمیشن کی تیار کردہ حلقہ بندیوں کو کسی بھی عدالت میں چیلنج کرنے سے روک دیا تھا۔ حالیہ فیصلے کی منطق یہی ہے کہ عام انتخابات کی تاریح آنا معمولی بات نہیں‘ ملک میں سیاسی استحکام کے قیام اور الیکشن کے بروقت انعقاد کے لیے زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے؛ ہائی کورٹس کے فیصلوں کو بروئے کار لایا جاتا تو الیکشن میں تاخیر کے خدشات موجود تھے‘ اس سے مقررہ وقت میں کاغذاتِ نامزدگی وصول کرنے کا عمل رک سکتا تھا۔
گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے تمام اراکین نے وکلا تنظیموں کی جانب سے عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی پر شکوک و شبہات کے اظہار‘ انتخابی طریقہ کار‘ حلقہ بندیوں اور نشستوں کی تقسیم پر اٹھائے گئے سوالات کو مسترد کرتے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پر غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ترجمان الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیاہے کہ ادارہ تمام فیصلے مشترکہ طور پر کرتا ہے‘ تمام فیصلے باہمی مشاورت سے ہوئے ہیں‘ کمیشن نے تمام اضلاع کا کوٹہ باہمی رضا مندی اور قانونی تقاضوں سے طے کیا گیا ہے۔وکلاء تنظیموں کے اعلامیے کو ملک کے ممتاز قانون دان حامد خان نے بھی مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی وکلاء تنظیموں کے اعلامیے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ دیکھا جائے تو عام انتخابات میں شفافیت یقینی بنانے کی ذمہ داری پولنگ ایجنٹوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر پارٹی کے پولنگ ایجنٹس الیکشن قواعد و ضوابط کے مطابق پولنگ سٹیشنوں پر الیکشن کے عمل سے گنتی کے مراحل تک موجود رہے تو الیکشن میں کسی قسم کی گڑبڑ ہونے کے امکانات نہیں ہوں گے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 90کے تحت پریذائیڈنگ افسر پولنگ سٹیشن پر ووٹوں کی گنتی کے فوراً بعد فارم 45اور 46پر 7پولنگ ایجنٹوں کے دستخط کروانے کے بعد ہی ریٹرننگ افسر کو بھجوانے کا پابند ہے۔ گنتی کے عمل پر نگاہ رکھنا پولنگ ایجنٹوں کی ذمہ داری ہے۔ انہیں پولنگ اور گنتی کے عمل کے دوران کسی بھی غرض سے باہر جانے سے پہلے متبادل بندوبست کرکے جانا ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کے لیے تمام انتظامات فول پروف بنا رکھے ہیں۔ وکلا تنظیمیں اور تمام سیاسی جماعتیں خاطر جمع رکھیں کہ الیکشن کمیشن مکمل طور پر غیرجانبدار ہے۔
ملک حالیہ کچھ عرصہ میں جس سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار رہا ہے‘ آنے والی حکومت کو اس حوالے سے مشکل مگر دور اندیشانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ سیاسی محاذ آرائی‘ اقتصادی بدحالی اور دہشت گردی کے موجودہ ماحول میں ایسی قیادت کا انتخاب جو ان تمام دشواریوں پر قابو پا سکے‘ عوام کی قوتِ فیصلہ کا بڑا امتحان ہے۔ انہیں اپنے ووٹ کے ذریعے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا ہو گا جو ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک کے روشن مستقبل کے لیے اپنی صلاحیتیں استعمال کرسکیں۔ اس سمت میں سب سے پہلے قدم یہ ہے کہ امیدوار انتخابی مہم ایک دوسرے کی کردارکشی اور ذاتیات سے بالاتر ہو کر ملکی و قومی مسائل پر مرکوز رکھیں اور انتخابی مہمات میں انتخابی منشور کے نکات کو اُجاگر کریں۔ الیکشن کمیشن کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران‘ جن کا تعلق انتظامیہ سے ہے‘ کے ذریعے انتخابی ضابطہ اخلاق پر ہر صورت عملدرآمد کروانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن اپنی مانیٹرنگ ٹیموں کو مزید بااختیار بناتے ہوئے‘ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے امیدواروں کو الیکشن سے نااہل قرار دینے کے احکامات جاری کر کے انتخابی فضا کو پُرامن بناسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے بر وقت انعقاد کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے ‘ الیکشن کمیشن کو بھی چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے مواقع فراہم کر کے ان کی شکایات کا ازالہ کرے تاکہ انتخابات کا شفاف انعقاد یقینی بنایا جا سکے۔
اُدھر الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 230کی خلاف ورزی پر نگران وفاقی حکومت کے مشیر احد چیمہ کو ان کے عہدے سے سبکدوش کرا دیا ہے۔ احد چیمہ ماضی کے تمام مقدمات سے بریت حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 230کے تحت اپنے اثاثوں کی تفصیل الیکشن کمیشن کو بھجوانی چاہیے تھی۔ جہاں تک ان کے ایک سیاسی جماعت سے منسلک ہونے کا تعلق ہے تو ہر بیورو کریٹ کا دورانِ ملازمت کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق تو خود بخود بن جاتا ہے۔ اسی طرح فواد حسن فواد کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن میں زیرسماعت ہے۔ ان کا بھی فیصلہ آنے ہی والا ہے اور ممکن ہے کہ فواد حسن فواد کو بھی عبوری حکومت کے سیٹ اَپ سے علیحدہ کر دیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں