"KDC" (space) message & send to 7575

پارٹی رجسٹریشن بھی منسوخ ہو سکتی ہے!

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 215کے تحت پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلّا واپس لے لیا ہے۔ اس اقدام سے تحریک انصاف کا بطور پارٹی عام انتخابات میں حصہ لینے کا راستے بند ہو سکتا ہے۔ انتخابی نشان کی منسوخی سے پاکستان تحریک انصاف الیکشن کمیشن کی رجسٹرڈ پارٹیوں کی فہرست سے بھی نکل چکی ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 209کے تحت ہر سیاسی جماعت کیلئے انٹرا پارٹی انتخابات کروانا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے 23نومبر 2023ء کو دیے گئے فیصلے میں کی گئی ہدایات پر عمل نہیں کیا ‘پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات اپنے پارٹی آئین 2019ء‘ الیکشن ایکٹ 2017ء اور الیکشن رولز 2017ء کے مطابق نہیں کروائے‘ لہٰذا پی ٹی آئی بلے کے نشان کی اہل نہیں ۔پی ٹی آئی کے مبینہ چیئرمین کی جانب سے چار دسمبر کو جمع کرائے گئے سرٹیفکیٹ اور فارم 65کو مسترد کیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں اسد عمر کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل قرار دیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے مطابق عمر ایوب کو پارٹی دستور کے مطابق پارٹی کا سیکرٹری جنرل تعینات نہیں کیا گیا‘ لہٰذا وہ نیاز اللہ نیازی کو پارٹی چیف الیکشن کمشنر تعینات نہیں کر سکتے تھے۔ پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کروانے کا کوئی اختیار نہیں تھا کیونکہ کمیشن کو پارٹی کے سابق چیف الیکشن کمشنر جمال اکبر انصاری کا کوئی استعفیٰ نہیں ملا اور نہ جمال اکبر انصاری کو ہٹانے کے کوئی دستاویزات ہیں۔ تحریک انصاف نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری قانونی طریقہ کار کے مطابق نہیں کی گئی تھی کیونکہ پارٹی میں نیشنل کونسل کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘ لہٰذا عمر ایوب خان کے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کیلئے 28نومبر 2023ء کے نوٹیفکیشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کے تمام عہدیداران بشمول چیئرمین اپنی مدت مکمل کر چکے تھے۔ تحریک انصاف کے اپنے دستور کے مطابق بھی پارٹی کے عہدیداران کی مدت میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا اور دستیاب تحریری ریکارڈ کے مطابق اسد عمر ہی تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ جبکہ عمر ایوب خان کے بطور پارٹی سیکرٹری جنرل تقرر کا کوئی نوٹیفکیشن پیش نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف کیلئے جماعت کے اہم فیصلوں کیلئے چیف آرگنائزر کا تقرر کرنا ضروری تھا لیکن دستیاب ریکارڈ کے مطابق کبھی کسی کو تحریک انصاف کا چیف آرگنائزر مقرر نہیں کیا گیا۔الیکشن کمیشن کے فیصلے سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے ا لیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کو مدِ نظر نہیں رکھا۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی قیادت کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کیلئے بار بار نوٹسز بھجوائے جن کو پارٹی کے سربراہ نے مسلسل نظرانداز کیے رکھا۔ تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا استحقاق رکھتی ہے‘ اور چونکہ متعلقہ ریٹرننگ افسران نے 13جنوری تک امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کرنے ہیں‘ لہٰذا اس حوالے سے جو بھی فیصلہ ہونا ہے‘ وہ اس سے قبل ہوجانا چاہیے تاکہ انتخابی شیڈول کسی بھی صورت متاثر نہ ہو سکے۔
تاریخ میں جھانکنے سے ہمیں معلوم ہوگا کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تبدیل ہو ا تھا لیکن اس سے ان کی انتخابی مہم پر زیادہ اثر نہیں پڑا ۔ بیلٹ پیپر پر امیدوار کا نام ہی کافی ہوتا ہے۔ ملک میں خواندگی کی شرح بھی اب پہلے سے زیادہ ہے‘ لہٰذا کسی بھی پارٹی یا امیدوار کے حامیوں کو اپنی پسندیدہ جماعت یا اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دینے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔ اب وہ وقت گزر چکا کہ جب لوگ صرف انتخابی نشان کو ذہن میں رکھ کر ووٹ دیتے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو 1970ء کے عام انتخابات سے پہلے انتخابی نشان تلوار الاٹ کیا گیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن سے قبل اپنے لیٹر پیڈ پر پارٹی پرچم کیساتھ ہی تلوار کا نشان بھی ثبت کر رکھا تھا اور حنیف رامے اپنے ہفت روزہ ''نصرت‘‘ میں تلوار کو بطور سمبل اُجاگر کرتے رہے۔ انتخابی نشانات کی فہرست میں تلوار کا اضافہ کرنے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) ستار سے ملاقات کر کے الیکشن کمیشن کی انتخابی نشانات کی فہرست میں تلوار کا اضافہ کروایا تھا جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی ایما پر ''کشتی‘‘ کو بھی انتخابی نشانات کی فہرست میں شامل کا گیا تھا۔ بنگلہ دیش میں اب بھی کشتی عوامی لیگ کا انتخابی نشان ہے جبکہ جنوری 1977ء کے مارشل لاء کے بعد‘ جب ضیا الحق نے 90روز میں انتخابات کے وعدے کیساتھ انتظام سنبھالا تھا‘لیکن بعد میں یہ انتخابات غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کروا دیے گئے‘ اس وقت پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار واپس لے لیا گیا۔ تب چونکہ عام انتخابات غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیے گئے تھے اس لیے انتخابی نشان پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ جب 29مئی 1988ء کو ضیا الحق نے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا اور الیکشن کرانے کی نوید سنائی تو الیکشن کمیشن نے پارٹی سمبل کے چارٹ کو ازسرِنو مرتب کیا اور تلوار کے بجائے تیر کا انتخابی نشان اپنی فہرست میں شامل کر لیا۔ پھر جب الیکشن کیلئے نشانات دینے کیلئے درخواستیں طلب کی گئیں تو بے نظیر بھٹو نے تلوار کا نشان الیکشن کمیشن کی انتخابی نشانات کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ 17اگست 1988ء کو ضیا الحق کے حادثہ کے بعد قائم مقام صدر غلام اسحاق نے 24اکتوبر 1988ء کو انتخابی شیڈول جاری کیا تو بے نظیر بھٹو نے یحییٰ بختیار اور اعتزاز احسن کو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ایس اے نصرت کے پاس بھیجا اور ان دونوں نے جسٹس ایس اے نصرت سے پیپلز پارٹی کیلئے تلوار کا نشان لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے الیکشن سمبلز میں شامل کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ تب میری موجودگی میں اعتزاز احسن نے دلائل کے انبار لگا دیے تھے جبکہ یحییٰ بختیار اس دوران خاموش رہے۔ اعتزاز احسن نے چیف الیکشن کمشنر پر دباؤ ڈالنے کیلئے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان بھی کیا جس پر جسٹس ایس اے نصرت نے انہیں انتہائی رازداری سے بتایا کہ صدر غلام اسحاق تلوار کا نشان دینے سے انکاری ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو اس سے الیکشن کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ‘لہٰذا تلوار کا نعم البدل ''تیر‘‘ پیپلز پارٹی کو الاٹ کیا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو کے مشورہ کے بعد تیر کا نشان پاکستان پیپلز پارٹی کو الاٹ کر دیا گیا اور یہ اب پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کا انتخابی نشان ہے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلّا‘ جو اَب تحریک انصاف اور عمران خان کی پہچان بن چکا ہے‘ واپس لیا جا چکا ہے‘ جس کی واپسی کا فیصلہ اب عدلیہ نے کرنا ہے۔تحریک انصاف کے امیدوار اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے ہی مختلف انتخابی نشانات پر انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ تحریک انصاف کوئی انتخابی الائنس بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 209 کی قانونی رکاوٹیں اس راہ میں حائل ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ان انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ابھی سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں جب جب انتخابی نتائج متنازع ہوئے‘ تشکیل پانے والی نئی حکومتیں سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہیں۔عام انتخابات کے نتائج پر آنے والے ردِ عمل سے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ ان نتائج کے بعد تشکیل پانے والی حکومت کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگر ان نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا تو اس سے نہ صرف ملک کے تقریباً 60 ارب روپے ڈوب جائیں گے بلکہ ملک جس سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہوگا‘ وہ ملکی معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں