"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی امیدواروں کے تحفظات

22دسمبر بروز جمعہ کو ہونے والی ایک سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کی لیول پلینگ فیلڈ سے متعلق درخواست کو نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام شکایات پر فوری ایکشن لے کر انہیں حل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے حکام کو ہدایات جاری کرتے ہوئے تمام آئی جیز کو پی ٹی آئی کارکنوں کو ہراساں نہ کرنے کی ہدایت جاری کی۔ سپریم کورٹ میں یہ درخواست پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے 21دسمبر کو دائر کی تھی جس میں عدالتِ عظمیٰ سے لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے استدعا کی گئی تھی کہ وہ الیکشن کمیشن کو لیول پلینگ فیلڈ اور شفاف انتخابات کی ہدایت دے۔تحریک انصاف کی لیول پلینگ فیلڈ کے حوالے سے دائر درخواست اگلے ہی روز نمٹائے جانے سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ فراہم کرنے کی حامی ہے۔ اس سے قبل بھی عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا تھا۔دوسری طرف نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑکہتے ہیں کہ کسی امیدوار کو انتخابی عمل سے نہیں روکا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت انتخابی عمل میں حصہ لینے سے روکے جانے کے حوالے سے شکایات کی تحقیقات کرے گی۔ عوام اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے میں آزاد ہیں۔ کسی کو سیاسی میدان سے بے دخل کرنے کی کوئی حکومتی پالیسی نہیں ‘بالخصوص تحریک انصاف کے حوالے سے نگران حکومت یا کسی بھی اور سطح پر ایسی کوئی پالیسی نہیں کہ اس کے سیاسی وجود کو ختم کیا جائے۔ یہاں واضح کرتا چلوں کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 167اور 171کے تحت الیکشن کی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹیں کھڑی کرنا کرپٹ پریکٹسز کے زمرے میں آتا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے بھی واضح احکامات جاری کیے تھے کہ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی راہ میں مشکلات کھڑی نہ کی جائیں۔
آٹھ فروری کے قومی انتخابات کیلئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جا چکے ہیں‘ گزشتہ روز کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی۔ الیکشن شیڈول میں تو کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ 22دسمبر تھی لیکن سیاسی جماعتوں کی درخواست پر اس میں دو روز کی توسیع کر دی گئی تھی۔ آج‘ 25دسمبر سے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل شروع ہو جائے گا جوکہ 30دسمبر تک جاری رہے گا۔ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن بہرحال یہ مرحلہ بھی بخوبی طے ہونے کی امید ہے۔ آٹھ فروری کے عام انتخابات میں ملک بھر سے 12کروڑ 85لاکھ ووٹرز اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان میں 18سے 35سال کے ووٹرز کی تعداد نصف سے زیادہ ہے‘ یہ ووٹرز اپنے ووٹ کے ذریعے ملک کے سیاسی منظر نامے پر اہم تبدیلیاں لانے کے لیے مضطرب ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں نوجوانوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ انہیں بے روزگاری کے خاتمے اور نوجوانوں کے لیے روزگار فراہم کرنے کا حقیقت پر مبنی منشور تیار کرنا ہوگا۔
تحریک انصاف کی بات کریں تو بلّے کا انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد پی ٹی آئی کا ووٹر مایوسی کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کے پاس الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی آپشن موجود ہے۔ اگر ہائی کورٹ میں بھی یہ فیصلہ برقرار رہتا ہے تو تحریک انصاف سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کر سکتی ہے۔ اگر عدلیہ میں اپیل دائر کرنے کے بعد تحریک انصاف کو اُس کا انتخابی نشان بّلا واپس مل جاتا ہے تو یہ امر تحریک انصاف کے ووٹرز کا حوصلہ بڑھائے گا۔ لیکن اگر بلّے کا انتخابی نشان واپس نہ ملا اور تحریک انصاف کے امیدوار آزاد امیدواروں کی حیثیت سے میدان میں اُترے تو پھر پی ٹی آئی کونقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ پہلا نقصان پارٹی رجسٹریشن معطل ہونا ہے جبکہ دوسرا نقصان یہ کہ پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت سے جیت بھی جاتے ہیں تو وہ ایوان میں تحریک انصاف کی نمائندگی نہیں کر سکیں گے جس کا براہِ راست فائدہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ہو گا اور یہ نشستیں دیگر جماعتوں کے پاس چلی جائیں گی۔
عام انتخابات کے حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد‘ جب سیاسی جماعتوں پر اپنی حکومت بنانے کے حوالے سے پوزیشن واضح ہو جائے گی تب نئے اتحاد معرضِ وجود میں آئیں گے۔ چوہدری نثار علی خان آنے والی پنجاب حکومت میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چوہدری نثار علی نے قومی اور صوبائی دونوں حلقوں سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا دیے ہیں اور دونوں حلقوں سے کامیابی کے بعد وہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کریں گے۔ فی الحال ان کا جھکاؤ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف نظر آ رہا ہے۔
گزشتہ دنوں امیدواروں سے کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کی خبریں آ چکی ہیں۔اس پر سپریم کورٹ کا حکم جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے صورتحال کا نوٹس لیا اور چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کو ہدایات جاری کیں کہ کسی امیدوار کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے‘ لیکن الیکشن کمیشن کی ہدایت کے باوجود ایسی شکایات آنا شفاف انتخابات کے لیے اچھا شگون نہیں۔ انتخابی امیدواروں کی راہ میں حائل اگلی رکاوٹ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران کاغذات کی مستردگی کی صورت میں موجود ہے۔ کسی امیدوار کے کاغذات بلا جواز مسترد نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر پھر بھی ایسا ہوتا ہے تو متاثرہ امیدوار اپیلٹ الیکشن ٹربیونلز کے پاس جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھی اپنے ریٹرننگ افسران کو اسے حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کرنی چاہئیں۔
اُدھر الیکشن کمیشن کے احکامات پر بھی عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے احد چیمہ کی برطرفی کا نوٹس جاری کیا ہوا ہے لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے ابھی تک ان کی برطرفی کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن نے 26دسمبر کو نگران وفاقی کابینہ کے وزیر فواد حسن فواد کو بھی طلب کر رکھا ہے۔ اگر نگران وفاقی حکومت نے ان دونوں شخصیات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے احکامات کو نظرانداز کیا تو اس کے گہرے اثرات آٹھ فروری کے انتخابات اور اس سے پیشتر انتخابی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کروانے میں دشواری کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا انتخابی عملہ جو 10لاکھ افراد کے لگ بھگ ہو گا‘ اس پر الیکشن کمیشن کی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ لہٰذا حکومت کو الیکشن کمیشن کے احکامات پر ہر صورت عملدرآمد کروانا ہوگا۔ گزشتہ روز پنجاب سے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی ترجیحی فہرستیں جاری کر دی گئی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی ترجیحی فہرست روک لی گئی ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کی ترجیحی فہرست انتخابی نشان نہ ہونے کی وجہ سے روکی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی مخصوص نشستوں کی ترجیحی فہرست میں 20 نام شامل ہیں‘ جس میں پہلا نمبر طاہرہ اورنگزیب‘ دوسرا شائستہ پرویز اور تیسرا مریم اورنگزیب کا ہے۔پیپلزپارٹی کی ترجیحی فہرست چھ ناموں پر مشتمل ہے جس میں حناربانی کھرکا پہلا اورثمینہ خالدگھر کی کا دوسرا نمبر ہے۔ گزشتہ روز ہی الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی نئی فہرست بھی جاری کردی ہے جس میں پارٹی سربراہان کی فہرست سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا نام ہٹا دیا گیا ہے اور یہ خانہ فی الحال خالی رکھا گیا ہے جبکہ کل رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 175 بتائی گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں