"KDC" (space) message & send to 7575

سیکرٹری الیکشن کمیشن کا استعفیٰ

سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے خرابیٔ صحت کی بنا پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کی دو سالہ مدت ِملازمت گزشتہ برس جولائی میں ختم ہوگئی تھی تاہم چیف الیکشن کمشنر نے ان کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی۔اطلاعات کے مطابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ان کی صحت انہیں مزید کام کی اجازت نہیں دیتی۔ انہوں نے البتہ یہ وضاحت کی ہے کہ ان کا استعفیٰ کسی دباؤ کا نتیجہ نہیں۔یہ بھی سنا ہے کہ وہ کچھ دن تک ہسپتال میں زیر علاج رہے اور اب گھر پر زیر علاج ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا استعفیٰ جسے تادم تحریر چیف الیکشن کمشنر نے منظور نہیں کیا‘ کو ملک کے سیاسی اور انتخابی ماحول میں بم شیل کی طرح محسوس کیا گیا اور گزشتہ روز اس حوالے سے کئی طرح سے چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں کی گئیں‘ تاہم ترجمان الیکشن کمیشن کی بروقت وضاحت سے ان شبہات کا کسی حد تک ضرور تدارک ہو گیا ہے۔ ترجمان الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمرحمید ایک ذہین اور محنتی افسر ہیں اور بہت اچھے طریقے سے کام کر رہے ہیں تاہم ان کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب تھی اور اس وقت میڈیکل ریسٹ پر ہیں‘ ان کی صحت نے اجازت دی تو وہ جلد اپنے فرائض انجام دیں گے۔الیکشن کمیشن کے ترجمان نے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے استعفیٰ کے باوجود الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال ہے، الیکشن کمیشن کے کسی کام میں رکاوٹ یا رخنہ نہیں ہے اورتعطیلات کے دنوں میں بھی الیکشن کمیشن کے دفاتر کام کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ سیکرٹری کی غیر موجودگی میں دونوں سپیشل سیکرٹریز الیکشن کمیشن کاکام احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔ یہ بات مد نظر رہنی چاہیے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیف الیکشن کمشنر اختیار کا منبع ہیں‘ اس لیے کسی کے آنے جانے سے الیکشن کمیشن کو بحیثیت ادارہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چیف الیکشن کمشنر اس سلسلے میں مکمل طور پر بااختیار ہیں کہ کسی دوسرے افسر کو سیکرٹری کے اختیارات سونپ دیں‘ لہٰذا اس سلسلے میں کسی ابہام کی گنجائش نہیں۔
جہاں تک پانچ جنوری کو سینیٹ میں انتخابات التوا کے لیے منظور کی جانے والی قرارداد کی بات ہے تو اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ قرارداد چیئرمین سینیٹ کی سربراہی میں ہونے والے سینیٹ اجلاس میں منظور کی گئی تھی اور حیرانی یوں ہے کہ سینیٹ کے 14کے قریب ارکان جو اُس اجلاس میں موجود تھے ان میں سے کسی نے بھی یہ قرارداد پیش کئے جانے سے قبل کورم کی نشاندہی نہیں کی‘ جبکہ قرارداد کی منظوری کے بعد ان ارکان نے قرارداد کی مخالفت میں غیر مؤثر انداز میں تقاریر کر کے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کہ ان کی پارٹی مقررہ تاریخ کو انتخابات کرانے کے لیے پُرعزم ہے۔اس قرارداد کی منظوری نمازِ جمعہ کے وقفہ کے بعد دی گئی اور اُسی شام چیئرمین سینیٹ کی جانب سے یہ قرارداد الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ وزارت قانون و انصاف اور وزارت پارلیمانی امور کو بھی تیز رفتاری سے پہنچا دی گئی۔
سینیٹ میں انتخابات کے التوا کے حق میں قرارداد کی منظوری کے دوران کورم کی نشاندہی نہ کرنے کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اپنے سینیٹر گردیپ سنگھ کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔ نوٹس مرکزی سیکرٹری جنرل پاکستان تحریک انصاف عمر ایوب خان کی جانب سے جاری کیا گیا ہے جس میں سینیٹر گردیپ سنگھ سے تحریری طور پر جواب طلب کیا گیا ہے کہ انتخابات کے التواکے حوالے سے قرارداد کی منظوری کے دوران وہ ایوان میں موجود تھے تو انہوں نے ایوان میں موجود ہوتے ہوئے کورم کی نشاندہی کیوں نہیں کی۔نیز یہ کہ سینیٹر گردیپ سنگھ وضاحت کریں کہ پارٹی مؤقف کے مطابق انہوں نے انتخابات کے التوا کے لیے آنے والی قرارداد کی مخالفت کیوں نہیں کی۔ سینیٹر گردیپ سنگھ نے جواب نہ دیا یا ان کا جواب تسلّی بخش نہ ہوا تو پارٹی قواعد و ضوابط کی روشنی میں ان کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ادھرپیپلزپارٹی نے بھی اپنے سینیٹر بہرہ مند تنگی کو پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر شوکاز نوٹس جاری کیا ہے اور ان سے ایک ہفتے میں جواب طلب کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ نے 8 فروری کے انتخابات سے متعلق جو قرار داد پاس کی ہے آپ نے اس کے حق میں تقریر بھی کی جبکہ پیپلز پارٹی انتخابات بروقت چاہتی ہے۔ انتخابات کے التوا کی حمایت کر کے آپ نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کیوں کی ؟
آئین و قانون کو مدنظر رکھا جائے تو اس قرارداد کے آنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے۔ قرارداد کو نظرانداز کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وزارت قانون و انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا کیونکہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کی ہوئی ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کو نظرانداز کرنا توہین پارلیمنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی لیے نگران وزیر مرتضیٰ سولنگی نے اپنا پہلو بچاتے ہوئے قرارداد پر سرکاری مؤقف دینے سے گریز کرتے ہوئے معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کورٹ میں ڈال دیا ہے۔
میری رائے میں آئینی اور قانونی تقاضا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن کا روڈ میپ سپریم کورٹ میں پیش کرتے ہوئے اس قرارداد کے بارے میں عدالت سے راہنمائی حاصل کرے کیونکہ 8 فروری کی تاریخ کا تعین کرنے میں سپریم کورٹ‘ صدر مملکت اور وفاقی وزرا اور اہم سٹیک ہولڈر‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان شامل تھا۔ اس مقصد کے لیے آئین کے آرٹیکل 186 کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ قرارداد آنے کے بعد بعض قانونی ماہرین نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹ کے چیئرمین اور قرارداد پر دستخط کنندہ ارکانِ سینیٹ کے خلاف توہین سپریم کورٹ کی پٹیشن داخل کر دی ہے۔ دراصل ایسے متنازع معاملات کو سپریم کورٹ میں لانے میں شہرت کا بھی بڑا عمل دخل ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت پارلیمنٹ کی قرارداد اور ارکان اسمبلی کے اظہارِ خیال کوعدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔نگران حکومت کے وزیر مرتضیٰ سولنگی نے قرارداد کے متن کو زمینی حقائق کے مطابق قرار دیا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے اہم ترین اضلاع میں سکیورٹی مسائل ہیں اور ان مسائل کا سدباب 8فروری کے انتخابات سے پہلے کرنا ہو گا۔ اگر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پولنگ کے عمل میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوئے تو ان دونوں صوبوں کے پولنگ عملے اور ووٹرز کی حفاظت سوالیہ نشان بن جائے گی؛چنانچہ پیرا ملٹری فورس‘ رینجرز اور پولیس کو حفاظتی تدابیر کے لیے حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات خطرات کی زد میں ہیں اور سیاسی ماحول میں نفرت‘ اشتعال اور مفاد پرستی نے ایسی فضا پیدا کر دی ہے جس کے نتائج پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
ریٹرننگ آفیسرز نے بھی ابتدائی سطح پر کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے اپنا جوڈیشل مائنڈ استعمال نہیں کیا اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے برعکس ایسے فیصلے دیے جن سے اپیلٹ ججز پر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور انہوں نے کم و بیش کاغذاتِ نامزدگی منظور کر کے سیاسی اور انتخابی فضا کو آلودہ نہیں ہونے دیا اور ریٹرننگ آفیسرز کی قابلیت کا پول کھول دیا ہے۔ان ریٹرننگ آفیسرز کی موجودگی میں ہی آئندہ الیکشن کا روڈ میپ مکمل ہونا ہے اور کم سے کم 12 لاکھ سے زائد پولنگ کے عملہ سے کام لینا ہے‘ ان پر کنٹرول کرنا‘ الیکشن کے عمل میں غیر جانبداری کو برقرار رکھنا اور اتنی ہی مقدار میں پولنگ ایجنٹوں پر نگاہ رکھنا آسان مرحلہ نہیں۔ جن ریٹرننگ آفیسرزکا تعلق انتظامیہ سے ہے وہ حالات کو کنٹرول کریں کیونکہ اگلا ہفتہ الیکشن کے بارے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں