چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے سنگین غداری کے کیس میں خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو سنائی گئی سزا بدھ کے روز اپنے فیصلے میں درست قرار دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔دسمبر 2019ء میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت قائم کیے گئے سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین توڑنے کی پاداش میں سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا جسے بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
تین نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے پس پردہ محرکات کی بات کریں تو یہ عوامی یا ملکی مفاد میں نہیں لگائی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد صدارتی انتخاب کو سبوتاژ کرناتھا۔ پرویز مشرف کو سپریم کورٹ سے انتخابات میں حصہ لینے کی مشروط اجازت ملنے کے باوجود انہوں نے آئین معطل کیا اور ملک میں ایمرجنسی لگا دی۔ اس ایمرجنسی کا ایک محرک وہ لڑائی بھی تھی جو اُس وقت دو ریاستی ستونوں یعنی مقننہ اور عدلیہ کے درمیان جاری تھی کیونکہ پرویز مشرف نے ایک خط کو بنیاد بنا کر اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔پرویز مشرف کی ابھی عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ لال مسجد تنازع نے سر اٹھا لیا۔ اب میڈیا پر ہر طرف حکومت اور ریاست کی رِٹ چیلنج ہونے کی بات ہو رہی تھی۔جولائی 2007ء میں لال مسجد پر آپریشن ہوا اور یوں یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں جا پہنچا۔ ایسے میں صدارتی الیکشن بھی سر پر تھے اور پرویز مشرف بطور آرمی چیف ان انتخابات میں حصہ لینے پر بضد تھے۔ صدارتی انتخاب میں پرویز مشرف کے مدمقابل جسٹس (ر) وجیہ الدین اور مخدوم امین فہیم نمایاں امیدوار تھے۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا کہ کیسے ایک سرکاری ملازم انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔اس دوران سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے پر رہتے ہوئے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی مشروط اجازت دی اور اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو یہ بھی ہدایت کر دی کہ اس وقت تک کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کیا جائے جب تک ان کی اہلیت کے خلاف درخواست کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ اس فیصلہ کی روشنی میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی محمد فاروق نے بطور ریٹرننگ افسر صدارتی انتخاب کی کارروائی مکمل کی اور میں بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن اس اہم ترین صدارتی انتخاب کا چیف پولنگ افسر تھا اور چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اپنے اپنے صوبے میں صدارتی انتخاب کے ریٹرننگ افسران تھے۔
اس سے پیشتر 30 ستمبر 2007ء کو چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی محمد فاروق نے پرویز مشرف کے کاغذاتِ نامزدگی منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جون 2006ء کا اہم ترین فیصلے کا حوالہ دیا تھا جس میں اُس وقت کے چیف جسٹس ناظم الدین صدیقی نے قاضی حسین احمد بنام وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی لائرز فورم بنام وفاقی حکومت کی آئینی پٹیشن کے حوالے سے فیصلہ دیا تھا کہ صدرِ مملکت کے انتخاب میں آئین کے آرٹیکل 62لاگو نہیں ہوتا‘ لہٰذا اس اہم ترین فیصلہ کو بنیاد بنا کر چیف الیکشن کمشنر قاضی محمد فاروق نے پرویز مشرف کے صدارتی انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی منظور کر لیے تھے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں اور مشترکہ پارلیمنٹ کے اراکین نے بھاری تعداد میں پرویز مشرف کے حق میں ووٹ دیے۔ لیکن چونکہ سپریم کورٹ نے صدارتی انتخاب کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرنے پر حکمِ امتناع جاری کیا ہوا تھا لہٰذا الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت صدارتی انتخاب کے نتائج کو صدارتی شیڈول کے تحت روک لیا اور سپریم کورٹ سے پرویز مشرف کی بطور سرکاری عہدیدار صدراتی انتخاب کی اہلیت کا فیصلہ آنے تک صدارتی انتخاب کے نتائج کو عبوری طور پر منجمد کر دیا۔ حالانکہ آئین کے ارٹیکل 41 (6) کے تحت ان نتائج کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا‘ لیکن اس آرٹیکل کی موجودگی میں بھی سپریم کورٹ نے ماورائے آئین حکمِ امتناعی جاری کیا جبکہ یہ فیصلہ جاری کرنے والے بینچ کے کچھ جج صاحبان نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ صدارتی انتخاب میں رخنہ اندازی نہیں کی جا سکتی۔ ممکن ہے کہ یہ سارا ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس اب بھی موجود ہو۔
دوسری طرف صدارتی انتخاب کے حوالے سے ایوانِ صدر اور سپریم کورٹ کے بعض معزز جج صاحبان کے درمیان بیک ڈور بات چیت چلتی رہی اور صدر ِپاکستان کے سکیورٹی سیکرٹری طارق عزیز اور صدرِ مملکت کے چیف آف سٹاف جنرل حامد جاوید اس حوالے سے کافی متحرک رہے ۔اس حوالے سے ایک اہم موڑ یکم نومبر 2007ء کو آیا جب مرحوم لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد جاوید اور مرحوم طارق عزیز کے بقول اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ یہ معاملہ طے پایا کہ ایوانِ صدر یہ بیان جاری کرے کہ چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری کے ساتھ ایوانِ صدر سے جو زیادتی ہوئی اور انہیں معطل کیا گیا ‘ اس کی تلافی کی جائے اور یہ بھی کہ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کمیشن کو بھیجا جانے والا ریفرنس غلط فہمی کی وجہ سے جاری ہوا۔ بقول لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد جاوید اس کے بدلے میں چیف جسٹس (ر)افتخار چوہدری نے صدر پرویز مشرف کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے صدارتی انتخاب کو آئین کے مطابق قرار دے دیں گے اور یہ معاملہ یہیں ختم تصور کیا جائے۔لیکن بدقسمتی سے بعض سازشی عناصر جو ہر وقت صدرِ مملکت اور وزیراعظم کو گھیرے رہتے تھے‘ انہوں نے دو نومبر 2007ء کی رات صدرِ مملکت پرویز مشرف کو بریفنگ دی کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے وعدے سے منحرف ہو گئے ہیں اور وہ صدارتی انتخاب کو کالعدم قرار دے رہے ہیں جس سے حکومتی ڈھانچے اور وفاق کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ بقول لیفٹیننٹ جنرل (ر)حامد جاوید مرحوم کے یہ بریفنگ اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم اور ایک غیر سرکاری شخصیت نے دی تھی جس پر تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ ہوا تاکہ صدارتی انتخاب کی راہ میں موجود تمام رکاوٹوں کو ختم کیا جائے۔ لہٰذا رات 8 بجے ہنگامی طور پر ایوانِ صدر میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان حلف اٹھا لیا ۔ میں بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن اس تقریب میں موجود تھا۔
یوں تین نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کو قانونی حیثیت دے دی گئی تھی اور اس ایمرجنسی کے باوجود پارلیمنٹ‘ چاروں صوبائی اسمبلیاں اور حکومتیں فعال رہیں اور کاروبارِ حکومت بھی چلتا رہا اور 15 نومبر 2007ء کو قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہو گئیں اور ایمرجنسی آرڈر 2007ء کے تحت الیکشن کمیشن نے 18 نومبر 2007ء کو انتخابی شیڈول جاری کر دیا۔اس ایمرجنسی کا ملک کے عام انتخابات پر کوئی اثر نہیں ہوا اور 27 نومبر 2007ء کو آرمی کمان کی تبدیلی بھی ہوگئی۔ گویا سارا عمل نام نہاد ایمرجنسی کے تحت ہی مکمل ہوتا گیا۔ اس ایمرجنسی سے سوائے چند جج صاحبان کے کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان عبدالحمید ڈوگر کے زیر سرپرستی لارجر بینچ نے چھ اکتوبر 2007ء کے صدارتی انتخاب کو آئینی قرار دے کر حکمِ امتناعی واپس لے لیا تھااور اسی رات کو الیکشن کمیشن نے کیبنٹ سیکرٹری کو صدارتی انتخاب کا رزلٹ بھجوا دیا تھا اور اگلے ہی دن چیف جسٹس آف پاکستان عبدالحمید ڈوگر نے صدر پرویز مشرف سے حلف لے لیا۔لہٰذا تین نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کی اس وقت تمام اداروں نے توثیق کر دی تھی۔