"KDC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ کا فیصلہ،پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہو گا؟

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے بعد پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کرکے تحریک انصاف سے اُس کا انتخابی نشان بلّا واپس لے لیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت انتخابی عمل سے باہر ہوگئی۔ تحریک انصاف کے 14 ارکان نے پارٹی انتخابات کے بارے شکایات الیکشن کمیشن کو بھجوائی تھیں جبکہ الیکشن کمیشن جون 2021ء سے تحریک انصاف کو پارٹی انتخابات کا نوٹس بھجوا رہا تھا۔ تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لیے جانے سے اس کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینا ہو گا‘ اوروہ 227 مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔ آئندہ سینیٹ الیکشن جو اسی سال مارچ میں متوقع ہیں‘ کی 52 نشستوں پر بھی الیکشن لڑنے سے پاکستان تحریک انصاف محروم ہو جائے گی کیونکہ سینیٹ کے الیکشن میں جماعتی طور پر ہی حصہ لیا جاتا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین 2021ء سے انٹراپارٹی الیکشن کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھے اور اپنے دورِ حکومت میں انٹرا پارٹی الیکشن سے لاتعلقی ظاہر کی۔ اپنے دور میں الیکشن کرا دیتے تو ان کی پارٹی کو اس بنیاد پر قومی دھارے سے باہر نہ کیا جاتا۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر نے جو مؤقف اختیار کیا اس سے انٹرا پارٹی الیکشن کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور آئندہ پارٹی کے داخلی انتخابات کے حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں کو سبق حاصل ہو گا۔ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کو نشانہ بنایا تھا۔الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کے بارے جو فیصلہ دیا تھا اس میں یہی کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے اپنے دستور کے مطابق الیکشن نہیں کرائے اور اسی فیصلے کی روشنی میں چیف جسٹس تحریک انصاف کے وکلا سے سوالات کرتے رہے جن کی وضاحت تحریک انصاف نہ کر سکے۔الیکشن کمیشن اگر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرتا تو پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ سے الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک پوسٹ آفس کی مانند ہو جاتی۔ پشاور ہائی کورٹ نے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو سوالیہ نشان بنادیا جبکہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 208‘209اور 215 اور الیکشن رولز کی دفعات 158 اور 159 الیکشن کمیشن اختیارات تفویض کرتی ہیں۔الیکشن ایکٹ کی دفعہ 204 کے تحت الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈنگ بھی ضبط کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور ابھی تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی سے بھی گزر رہی ہے۔ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی کے بعد تحریک انصاف کو بطور پارٹی خلاف قانون قراردینے کے لیے وفاقی حکومت کے لیے دروازہ کھل جائے گا اور وفاقی حکومت الیکشن ایکٹ کی دفعہ 212 اور آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت پارٹی کو خلاف قانون قرار دینے کی مجاز ہوگی۔تحریک انصاف کو ابھی ایک اور آزمائش کے مرحلے سے گزر نا ہے کیونکہ 9مئی کے واقعات کی روشنی میں نگران حکوت نے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں آئندہ آنے والی حکومت فیصلہ کرے گی کیونکہ کمیشن کی رپورٹ 8 فروری کے انتخابات سے پہلے نہیں آئے گی اور انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت بنے گی وہ اس رپورٹ کی روشنی میں تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت کالعدم قرار دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریفرنس بھجوا دے گی۔
چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد قرار دے کر پارٹی کو ممنوعہ ہونے پر ان کا سیاسی کردار برقرار رکھا ہے۔ عمران خان اس وقت اپنی سیاسی لائف کے اہم ترین موڑ پر کھڑے ہیں۔ ان کے خلاف توشہ خانہ‘ عدت کے دوران نکاح‘ سائفر کیس جیسے کیس بنائے گئے ہیں اور ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی کے بعد نااہلی جیسے پہاڑ کھڑے ہیں۔ان حالات میں عمران خان شاید 2028ء تک کسی بھی طرح الیکشن لڑنے کیلئے اہل نہ ہو سکیں اور اس دوران انہیں جیل میں ہی وقت گزارنا پڑے۔ عمران خان کی پارٹی پر وکلا نے قبضہ کر لیا ہے‘ اب اگر وکلا قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ عملی طور پر پارٹی کو یرغمال بنا کر پارٹی میں ازسرِنو انٹرا پارٹی الیکشن کروا کر عمران خان کا باب ہمیشہ کے لیے بند کر سکتے ہیں اور سردار لطیف کھوسہ اپنی سیاسی حکمت عملی اور گروپ کے تعاون سے پارٹی کے سربراہ بن کر دیگر پارلیمانی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کر کے حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔اگلے ماہ ہونے والے انتخابات کے بعد کا ایک منظر نامہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار کامیابی کے بعد آزاد اراکان کی حیثیت سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا حصہ بن جائیں اور اسی دوران تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کا شیڈول جاری کر دے اور الیکشن ایکٹ کی دفعات 208 اور 209 اور رولز 158 اور 159 کے مطابق الیکشن کروا کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں آزاد ارکان تحریک انصاف میں شامل ہو کر مضبوط ترین اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو جائیں۔
جس طرح ہر شہری کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ جس جماعت کو چاہے ووٹ دے‘ اسی طرح ایک سیاسی جماعت کے ہر رکن کوبھی یہ حق حاصل ہے۔ جمہوریت ایک بنیادی حق ہے جو ملک میں بھی اور ہر سیاسی جماعت کے اندر بھی دیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے جمہوریت کی حامی جماعتوں کے اندر عہدیداران کے انتخاب میں پارٹی کے ہر ممبر کو ووٹ کا حق دینا ضروری اور ایسا نہ کرنے کو آمریت قرار دے کر ملک میں پون صدی میں حقیقی جمہوری نظام قائم نہ ہونے کے ایک بنیادی سبب کی نشاندہی کی ہے۔تحریک انصاف نے اپنے پلان کے تحت پاکستان تحریک انصاف (نظریاتی) میں شامل ہونے کا عندیہ دیا اور اچانک اپنے امیدواروں کو پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے ٹکٹ پر پارٹی نشان بلے باز حاصل کرنے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ کچھ امیدوار اپنی درخواستوں کے ذریعے دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دوسری جماعت کا انتخابی نشان حاصل کیا جا سکے۔ الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسروں کو حکم دیا کہ وہ کسی اور سیاسی پارٹی کا انتخابی نشان کسی دوسرے امیدوار کو نہ دیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کے تحت ایک امیدوار ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا رکن نہیں ہو سکتا۔ بعد میں نظریاتی گروپ کے سربراہ نے پریس کانفرنس بھی کر دی اور تحریک انصاف سے کسی معاہدہ کے بارے لاتعلقی کا اظہار بھی کر دیا۔تحریک انصاف کے وکلا کو ادراک نہیں کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت الائنس اس جماعت سے کیا جاتا ہے جو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کے مطابق معیار پر پوری اترتی ہو۔ پاکستان تحریک انصاف کی رجسٹریشن بھی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کے تحت ختم ہو چکی ہے وہ بطور سیاسی جماعت تو منظرعام پر رہے گی لیکن الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن سے محروم ہو چکی ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی حیثیت کا لوہا منوا لیا ہے۔ پاکستان کے ادارے 8 فروری کے انتخابات کے لیے اس کی پشت پر کھڑے ہیں اور الیکشن کے بارے میں قیاس آرائیاں‘ افواہیں‘ تضاد اورابہام کا ازالہ ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن 8 فروری کے انتخابات کے لیے پُرعزم ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدوار قومی اسمبلی کی 266 اور صوبائی اسمبلی کی 593 نشستوں پر آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے جو کہ جمہوری ممالک کی انتخابی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں