"KDC" (space) message & send to 7575

آزاد ارکانِ اسمبلی کا مستقبل ‘ آئین خاموش ہے

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے انتظامات مکمل کر لئے ہیں‘ الیکشن مقررہ تاریخ آٹھ فروری ہی کو ہو گا ۔الیکشن کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا آئین کے آرٹیکل218(3) کے تحت حکومت کی ذمہ داری ہے؛ چنانچہ ووٹرز اور انتخابی عمل کی سکیورٹی یقینی بنانے کیلئے چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز اور آئی جی پولیس کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے پُراسرار واقعات کا مکمل تجزیہ ہم گزشتہ کالم میں کرچکے ہیں لیکن سوشل میڈیا اور بعض میڈیا ہائوسز تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے مسلسل الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنائے چلے جارہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں سے دوگنا زیادہ امیدوار میدان میں ہیں۔ قومی و چاروں صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر کل 17 ہزار 816 امیدوار میدان میں ہیں اور گیارہ ہزار 785 آزاد امیدوار ہیں۔ان حالات میں ہارس ٹریڈنگ کا راستہ ہموار ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ تحریک انصاف کے آزاد امیدوار قومی اسمبلی کی 266 نشستوں میں سے 224سے زائد حلقوں میں کھڑے ہیں‘ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کی 593نشستوں پر آزاد امیدوار ہیں ۔ اس کیساتھ ساتھ دیگر آزاد امیدوار بھی الیکشن میں حصّہ لے رہے ہیں۔دوسری جانب آئینی اور قانونی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجہ میں آزادانہ حیثیت سے کامیاب ہونیوالے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو تحریک انصاف یا کسی دوسری سیاسی جماعت جسے الیکشن میں حصّہ لینے کی اجازت نہ دی گئی ہو‘ میں شامل ہوسکتے ہیں؟ اسی بارے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ آئین اور الیکشن ایکٹ میں اس بارے میں ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کی وضاحت کی گئی ہے‘ اور پارلیمانی کمیٹی اور انتخابی اصلاحات کمیٹی نے بھی اس اہم ترین اور پیچیدہ مسئلہ پر الیکشن ایکٹ کی دفعہ209 ‘215 اور217میں ذکر نہیں کیا حالانکہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ215میں واضح طور پر درج ہے کہ جو پارٹی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209کے معیار پر پوری نہیں اترتی اسکا انتخابی نشان واپس لیاجاسکتا ہے۔
آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں انتخابی دنگل بھی دیکھنے میں آئے گا کیونکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر تحریک انصاف رجسٹرڈ جماعت کی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آئین کے آرٹیکل 51(5) اور 106(5) کے مطابق آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے ارکانِ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے پاس انکے الیکشن میں کامیابی کے نوٹیفکیشن کے تین دن کے اندر یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوجائیں۔ ان آئینی شقوں میں جہاں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے انتخابات کی بات کی جاتی ہے تو وہاں آئین میں سیاسی جماعتوں میں آزادانہ اراکینِ اسمبلی کی شمولیت کے بدلے میں وضاحت دی گئی ہے۔ اب معاملہ آئینی بحران کی طرف جاتا ہوا صاف نظر آرہا ہے۔ ریٹرنگ آفیسرز اور ڈسٹرکٹ ریٹرنگ آفیسرز حتمی نتیجہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 95کے تحت الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہیں تو اسکے 14 دن کے اندر الیکشن کمیشن کو گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرناہوتا ہے اور اسکے تین دن کے اندر اندر آئین کے آرٹیکل51اور 106کے مطابق آزاد کامیاب ارکانِ اسمبلی نے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے‘ لہٰذا پی ٹی آئی کے آزاد اور کامیاب اراکین اس آرٹیکل کی شق کے تحت پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کے فارم پر دستخط کردیں تو الیکشن کمیشن اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر حضرات کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا‘ لہٰذا الیکشن کمیشن کو عام انتخابات سے پیشتر ہی پالیسی امور پر قانونی احکامات جاری کرنا ہوں گے کہ آیا پی ٹی آئی میں آزادانہ ارکانِ اسمبلی شمولیت اختیار کر سکتے ہیں یا نہیں۔ مجھے اپنے تجربہ کی بنیاد پر خدشہ لاحق ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کے آزاد ارکانِ اسمبلی آئین کے آرٹیکل 51 اورآرٹیکل106کے مطابق تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے مخصوص نشستوں کا کوٹہ حاصل کرنے کا مطالبہ کردیں گے۔ اگر یہ آئینی مسئلہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو پھر ایوان کے اجلاس تاخیر کا شکار ہوں گے۔ اگر حالات کا رُخ تبدیل ہو گیا اور کوئی پارٹی بھی قائدِ ا یوان منتخب نہ کر سکی تو آئین کے آرٹیکل58(2) کے تحت صدرِ مملکت قومی سمبلی کو تحلیل کر سکتے ہیں۔ اگرچہ آئین کا آرٹیکل 58(2) عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجہ میں وزیر اعظم کے انتخاب کے حوالے سے رہنمائی دے رہا ہے لیکن یہی صورتحال ہو گی اگر قائد ِایوان کے انتخاب کیلئے مطلوبہ اکثریتی تعداد یعنی 166 ارکانِ اسمبلی کے اجتماعی فیصلہ پر نہیں پہنچتے‘ پھر صدرِ مملکت اپنا آئینی کردار ادا کر سکتے ہیں‘ لہٰذا تحریک انصاف کے آزاد ارکانِ اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو 8فروری کے انتخاب سے پہلے کرنا چاہئے تاکہ آئینی بحران سے بچاجاسکے۔
اب پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی الیکشن کے بحران کی طرف آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دستور میں لکھا ہے کہ ہر تین سال بعد انٹرا پارٹی الیکشن ہوں گے لیکن الیکشن ایکٹ2017ء کی دفعہ209کے مطابق جماعتی انتخابات کیلئے پانچ سال کی مہلت دی گئی ہے۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن 2019ء میں ہوئے تھے ۔یوں پانچ سال کی مدت مئی2024ء میں ختم ہوگی اس لیے عوامی نیشنل پارٹی کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 208(5) کے تحت جرمانہ کرکے انتخابی نشان الاٹ کر دیا گیا‘ مگر پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے میں جو کوتاہی برتی اس کا خمیازہ پی ٹی آئی بھگت رہی ہے۔ 2017ء میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن تسنیم نورانی کے استعفیٰ کے بعد کروائے گئے۔ تسنیم نورانی وفاقی سیکرٹری داخلہ رہ چکے ہیں ‘ان کو عمران خان نے پارٹی کے الیکشن کیلئے چیف الیکشن کمیشن مقرر کیا تھا۔ انہوں نے پارٹی کے اندرونی اختلافات اور ووٹرز لسٹ مکمل نہ ہونے اور دیگر پیچیدہ حالات کو دیکھتے ہوئے مارچ2016ء میں استعفیٰ دے دیا۔ بعد ازاں تحریک انصاف کے انتخابات2017ء میں بھی ہوئے جو اختلافات کا شکار ہوگئے۔ جون2022ء میں پی ٹی آئی کے انتخابات کو ہوئے پانچ سال مکمل ہونے پر دوبارہ انتخابات کرانے کیلئے مئی 2021ء میں الیکشن کمیشن نے نوٹس بھجوایا تھا‘ پی ٹی آئی نے اس نوٹس کو نظر انداز کردیا۔کچھ عرصہ بعد دوسرا نوٹس جاری کیا گیا اور 13جون 2023ء کی ڈیڈ لائن مقرر کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس تاریخ سے پہلے انتخابات نہ کروائے تو پارٹی انتخابی نشان سے محروم ہوجائے گی۔ پی ٹی آئی کے چیئر مین نے جون 2022ء میں الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن ہوگئے ہیں۔ اگرچہ حقیقی انتخابات کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں ہوتے مگر ضابطے کی کارروائی ضرور کی جاتی ہے مگر پی ٹی آئی نے اس رسمی انتخاب کا تکلف بھی گوارا نہ کیا اور 13ستمبر2023ء کو الیکشن کمیشن نے اس نام نہاد انٹرا پارٹی الیکشن کا سراغ لگا لیا ۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو ایک اور موقع دیا اور پارٹی کے انتخابات کو الیکشن رولز 158اور 159کے مطابق کروانے کی ہدایات جاری کی ۔اس نوٹس کو تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا اور پھر22نومبر2023کے فیصلہ کی روشنی میں دو دسمبر2023ء کو تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22دسمبر2023کو کالعدم قرار دے دئیے اور بالآخر اس کا منطقی انجام 13جنوری2024ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کی روشنی میں سامنے آیا‘اور ملک ایک بڑی سیاسی جماعت انتخابی دھارے سے باہر آگئی۔حاصلِ کلام یہ ہے کہ ادارے آزادانہ حیثیت سے کام کر رہے ہیں الیکشن کمیشن کی کارکردگی آئین و قانون کے مطابق بہتر جارہی ہے‘ لہٰذا قانونی سقم کو دُور کرنا ریاست کے مفاد میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں