"KDC" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہونے کا استحقاق کھو چکی

بین الاقوامی لاز اور پبلک لاز کے اصولوں کے تحت کوئی بھی ریاست کسی بھی شخص کو ملکی معاملات کو غیرذمہ دارانہ طریقے سے ہینڈل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ملکی آئین کے آرٹیکل (5)95 کے تھرڈ شیڈول میں وزیراعظم کو حلف اٹھاتے ہوئے ریاستی مفاد کے تحت رازداری کو برقرار رکھنے کا پابند بنایا جاتا ہے‘ اس کے باوجود عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم ایک انتہائی اہم سفارتی سائفر کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے سرِعام عوام کے سامنے لہرایا جس سے ملک کے سفارتی تعلقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اب سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس‘ دس سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم اور ٹھوس کیس تھا کیونکہ اس کیس میں اُن شخصیات نے عمران خان کے خلاف گواہی دی ہے جو تب اہم سرکاری عہدوں پر تعینات تھیں۔
سائفر کیس کو تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے چلایا گیا اور ملزمان کو ان کا حقِ دفاع بھی دیا گیا‘ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے بانی پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم اس کیس کے حوالے سے تاخیری حربے احتیار کر رہی تھی اور معزز جج صاحب کے بار بار بلانے پر بھی پیش نہیں ہو رہی تھی۔ فارن فنڈنگ کیس میں بھی عمران خان کی قانونی ٹیم نے ایسے ہی تاخیری حربوں سے کام لیا تھا اور وہ کیس بھی سات سال لٹکا رہا‘ اس دوران عمران خان کے وکلا عدالتوں سے بار بار حکمِ امتناعی حاصل کرتے رہے۔ سائفر کیس میں عمران خان کے وکلا کے تاخیری حربوں سے زچ آ کر انہیں سٹیٹ ڈیفنس کونسل کی سہولت فراہم کی گئی تاکہ اس کیس پر بلا ناغہ عدالتی کارروائی جاری رکھی جا سکے۔ اس کیس میں پہلے اہم ترین گواہ اعظم خان تھے جنہوں نے عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر خدمات سرانجام دیں‘ وہ اپنے حلفیہ بیان میں یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کو امریکی سائفر دیا جو اُنہوں نے سفارتی رولز آف بزنس کے تحت واپس نہیں کیا۔ اس کیس کے دوسرے اہم ترین گواہ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید تھے‘ جنہوں نے واشنگٹن سے مذکورہ سائفر پاکستان بھیجا تھا۔ وہ بھی عدالت میں حلفیہ بیان جمع کرا چکے ہیں کہ مذکورہ سائفر میں حکومتِ پاکستان کے خلاف کسی امریکی سازش کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس کیس کے تیسرے اہم ترین گواہ اُس وقت کے سیکرٹری خارجہ سہیل محمود تھے‘ جب یہ سائفر پاکستانی دفترِ خارجہ کو موصول ہوا تھا۔ وہ بھی سائفر کے حوالے سے عدالت میں حلفیہ بیان دے چکے ہیں کہ اس سائفر کو غلط انداز میں ہینڈل کرنے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو کافی نقصان پہنچا۔
اعظم خان اور عمران خان کی مذکورہ امریکی سائفر کے حوالے سے منظرِ عام پر آنے والی آڈیو لیک کے بعد یہ ساری صورتحال واضح ہو گئی تھی۔ مذکورہ آڈیو لیک میں عمران خان کو اعظم خان کے ساتھ مل کر سائفر کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا پلان بناتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ سائفر کیس کے حوالے سے جو عدالتی فیصلہ آیا ہے‘ وہ انتہائی اہم ہے کیونکہ کسی بھی شخص کو پاکستان کی نیشنل سکیورٹی اور سفارتی تعلقات کو سیاسی مقاصد کیلئے کمپرومائز کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سائفر کیس کے فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی شخص‘ خواہ وہ کسی بھی ریاستی عہدے پر فائز رہا ہو‘ چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو‘ نیشنل سکیورٹی کو نقصان پہنچانے پر وہ قانون کے سامنے جواب دہ ہو گا۔ 29جنوری کو رات گئے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں تمام 25گواہان کے بیانات پر جرح مکمل کر لی گئی تھی۔ سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو سوال نامہ دیا گیا تھا جس میں ان سے 36سوالوں کے جواب مانگے گئے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ عمران خان کی قانونی ٹیم کی تاخیری پالیسی انہیں بہت مہنگی پڑی اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بننے والی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی موجودگی میں مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے انہیں دس‘ دس سال کی قید بامشقت سنا دی ہے۔ سائفر کیس کا فیصلہ آنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سائفر کا معاملہ اُٹھنے سے قبل 22 اگست 2022ء کو بانی پی ٹی آئی کی سا بق آرمی چیف جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے عمران سے کہا تھا کہ ''انسان بن جاؤ‘ ورنہ سزا ہو جائے گی‘‘۔ آپ انہیں عدالت بلائیں‘ میں حلف دینے کیلئے تیار ہوں۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ حاضر سروس چیف آف آرمی سٹاف ملک کے سابق وزیراعظم اور وزیرخارجہ کے ساتھ ایسی زبان استعمال نہیں کرتے۔ قمر جاوید باجوہ سے شاہ محمود قریشی اور عمران خان کے اختلافات اپنی جگہ لیکن مذکورہ ملاقات کے حوالے سے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ملاقات کا اہتمام عمران خان کی طرف سے کیا گیا تھا جس کے لیے انہوں نے ایک ریٹائرڈ فور سٹار جنرل کی خدمات حاصل کی تھیں اور ان کی ایما پر ہی جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے ایوانِ صدر میں اُن سے ملاقات کی تھی لہٰذا مجھے شاہ محمود قریشی کا یہ بیان پڑھ کر افسوس ہوا۔
دوسری طرف اگر انتخابات کی بات کریں تو عام انتخابات میں پہلی مرتبہ ووٹ کاسٹ کرنے والوں میں نوجوان خواتین کا تناسب تقریباً 11 فیصد سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ آٹھ فروری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں ایک کروڑ 25 لاکھ 91ہزار سے زائد نوجوان خواتین ووٹرز اور ایک کروڑ 38 ہزار سے زائد نوجوان مرد ووٹرز پہلی مرتبہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرینگے۔بادی النظر میں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اکثر آزاد امیدوار کامیابی حاصل کر لیں گے‘اگر ایسا ہو جاتا ہے تو نئی حکومت کی تشکیل میں ان آزاد امیداواروں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ دیگر بڑی سیاسی جماعتیں انہیں اپنے ساتھ ملانے کیلئے تگ و دو کریں گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ انکی طرف مائل بھی ہو جائیں کیونکہ ہمارے یہاں ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پارٹیاں تبدیل کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے حامی آزاد اراکین اپنے چیئرمین کے وفادار رہتے ہوئے کسی دوسری جماعت میں ان کی اجازت کے بغیر شمولیت اختیار نہ کریں۔ اگر پی ٹی آئی کے آزاد اراکین کو خود سے فیصلہ کرنا ہوا تو ممکن ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل (5)51 اور (C)106 کے مطابق کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو ترجیح دیں یا پھر جہانگیر ترین کی ایما پر استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں اور پنجاب میں حکومت بنا لیں۔ 11 فروری تک یہ صورتحال واضح ہو جائیگی۔ الیکشن کے فوراً بعد کامیاب ہونیوالے ارکانِ اسمبلی کو اپنے انتخابی اخراجات کے گوشوارے دس روز کے اندر اندر الیکشن کمیشن میں اپنے متعلقہ ریٹرننگ افسر کے ذریعے بھجوانے ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرتا ہے۔
پی ٹی آئی بلے کا انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد عام انتخابات میں بطور سیاسی جماعت حصہ نہیں لے رہی اس لیے اس کے انتخابی جلسوں پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 215کے تحت تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلہ کی توثیق کردی تھی‘ لہٰذا بادی النظر میں تحریک انصاف کو انتخابی نشان کی منسوخی کے بعد انتخابی جلسے منعقد کرنے کیلئے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 اور دیگر قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے قانونی ماہرین کی وساطت سے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ بہرحال اس حوالے سے فیصلہ تو الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے کہ وہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کی مکمل تشریح کیسے کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں