"KDC" (space) message & send to 7575

آزاد ارکان اسمبلی اپنا وزیراعظم منتخب کرا سکتے ہیں

عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار اکثریت میں زیادہ ہوں تو وزیر اعظم بھی بنا سکتے ہیں ۔ آئین میں ایسی کوئی قدغن نہیں اور پارٹی کا منصوبہ ہونے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ آزاد ارکانِ اسمبلی اپنی اکثریت کی واضح صورت حال دیکھتے ہوئے صوبے میں بھی وزیراعلیٰ منتخب کرا سکتے ہیں۔ آزاد ارکان اسمبلی آئین کے آرٹیکل 106کے تحت تین دن کے اندر کسی بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے پابند ہیں۔ ایسی پارٹی جو الیکشن کمیشن آف پاکستان سے انتخابی نشان حاصل کر چکی ہو۔ اگر آزاد ارکانِ اسمبلی مقررہ وقت میں پارٹی میں شمولیت اختیارنہیں کرتے تو وہ آزاد ہی تصور ہوں گے۔بہرحال یہ معاملہ ابھی زیرِ غور رہے گا کیونکہ ماضی میں آزاد ارکانِ اسمبلی نے حکمران جماعت میں اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر بعد میں بھی شمولیت اختیار کی تھی۔ آزاد ارکانِ اسمبلی کا کسی ایسی جماعت جو الیکشن کمیشن کے تفویض کردہ انتخابی نشان کی حامل ہو‘ میں شمولیت اختیار کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ مخصوص نشستوں کے کوٹہ پر غور کیا جا سکے۔
پاکستان تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے لیے اگلے روز شیڈول جاری کیا تھا جس کے تحت الیکشن 5 فروری بروز پیر کو ہونا تھے ‘تاہم اب پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کو ملتوی کردیا گیا جس کی تصدیق چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کی۔ بیرسٹر گوہر نے گزشتہ روز کہاکہ انٹراپارٹی انتخابات بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر ملتوی کیے گئے ہیں‘ کیونکہ انٹرا پارٹی الیکشن سے امیدواروں اور ووٹرز کی توجہ عام انتخابات سے ہٹ سکتی ہے۔پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا 5 فروری کاشیڈول جاری ہونے کے بعد سیاسی حلقوں میں اس پر بحث ہو رہی تھی۔ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے جوشیڈول جاری کیا اس کے مطابق پارٹی کے رجسٹرڈ ممبر اپنی مرضی کے پینل یا چیئرمین کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال سکیں گے۔ میری نظر میں اگر انٹرا پارٹی الیکشن اس وقت ہو بھی جاتے تو تحریک انصاف کو فوری طور پر ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ 5فروری کو ہونے والے انٹر پارٹی انتخاب کے بعد دستاویزات مکمل ہونے تک قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں ضابطہ کی کارروائی مکمل ہو چکی ہو گی اور آزاد ارکانِ اسمبلی تین دن کے اندر کسی ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں گے جو الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان رکھتی ہو۔ اگر الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی الیکشن کو پارٹی کے دستور کے مطابق کرانے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتا تو انتخابی نشان کے حصول کے لیے بھی ریفرنس دائر کرنا پڑتا اوراس دوران قومی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پا چکی ہوتیں۔ ضمنی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے بعض ارکان اسمبلی کا حصہ بن سکتے ہیں اور بعد ازاں آزاد ارکانِ اسمبلی اپنی پرانی جماعت میں شمولیت کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کر سکتے ہیں۔
آئندہ انتخابات کے نتیجہ میں تشکیل پانے والی حکومتوں کو آئینی و قانونی اور عدالتی بحرانوں سے گزرنے کے بعد صحیح سمت کی طرف پالیسی ساز اقدامات کرنا ہوں گے ۔ تحریک انصاف کے آزاد ارکان کو حکومت سازی کا حصہ بنانے کی حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے لیول پلینگ فیلڈ کے نظریہ کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ ووٹر تیز دھار آلہ ہے جس کی طاقت کو سمجھنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں۔ ماضی قدیم میں اقتدار کے حصول کے لیے میدانِ جنگ کا انتخاب کیا جاتا تھا، اب اقتدار حاصل کرنے کے لیے پولنگ سٹیشنوں پر حامی ووٹرز کو بھجوانے کا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے ، کیونکہ اقتدار کی جنگ پولنگ سٹیشنوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔پاکستانی جمہوریت کی بنیاد آئین ہے۔ یہ دستور روشن خیال اور جمہوری اصولوں پر بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں 1970ء،1977ء،1985ء،1988ء اور1990ء میں جو انتخابات کرائے گئے اُس وقت پولنگ سٹیشنوں پر آرمی کے اہلکار تعینات نہیں کئے جاتے تھے‘ پولیس ہی حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے بااختیار تھی۔1993ء کے انتخابات میں پہلی مرتبہ پولنگ سٹیشنوں پر آرمی کے اہلکار متعین کیے گئے۔ پاکستان میں جو انوکھے تجربات کیے جاتے ہیں ان کی مثال دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں مل سکتی۔مثال کے طور پر پاکستان واحد ملک ہے جہاں الیکشن کے انتظامات اور الیکشن کرانے کی ذمہ داری عدلیہ کو تفویض کی گئی ہے۔ اگرچہ اب 2024ء میں عدلیہ کے بجائے بیورو کریسی کے ذریعے انتخابات کرائے جا رہے ہیں۔ پولنگ سٹیشنوں پر آرمی کے اہلکاروں کی تعیناتی سے بین الاقوامی جمہوری ممالک میں اچھا تاثر نہیں جاتا۔ آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو با اختیار بنانا ہو گا اور پولنگ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے والی سیاسی جماعتوں کا احتساب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذریعے ہی کرایا جانا چاہیے۔جوں جوں پولنگ کی تاریخ قریب آ رہی ہے سیاسی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ عام لوگوں کے جوش و خروش میں اضافے کے ساتھ خدشات بھی ہیں‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سمیت ملک کے بعض علاقوں میں دہشت گردی اور سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کے تناظر میں‘ جن سے چشم پوشی ممکن نہیں‘ یہ زمینی حقائق ہیں کہ بعض پاکستان دشمن قوتیں اور ان کے ایجنٹ پاکستان میں پرُامن انتخابات کے انعقاد کو اپنے ایجنڈے کے منافی سمجھتے ہیں جبکہ بسا اوقات بے ہنگم و غیر منظم احتجاجی سرگرمیوں سے بھی روز مرہ زندگی کے معمول متاثر ہو رہے ہیں۔ اس پس منظر میں عسکری قیادت کا یہ عزم قوم کے اعتماد میں اضافے کا باعث ہے کہ سیاسی سرگرمیوں کے نام پر کسی کو بھی پُرتشدد کارروائی اور منصفانہ انتخابات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بلوچستان میں تخریب کاری کا سلسلہ جاری ہے اور خدشات پائے جا رہے ہیں کہ 8فروری کے پولنگ ڈے پر پولنگ سٹیشنوں کے اردگرد ناخوشگوار واقعات ووٹرز میں خوف وہراس پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ایسے واقعات ٹرن آؤٹ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں کیونکہ ووٹرز میں خوف و ہراس ہو تو پولنگ سٹیشنوں تک رسائی کیسے ہوسکتی ہے۔تاہم پنجاب اور سندھ میں حالات مکمل طور پر پُرسکون ہیں‘ اس لیے ان صوبوں میں ووٹرز کا ٹرن آئوٹ بہتر رہے گا۔ سیاسی عوامل ضرور راہ میں حائل ہوں گے لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں نوجوانوں کی بھاری اکثریت ووٹ دینا چاہتی ہے۔ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن کے لیے پانچ کروڑ سے زائد نوجوان ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ یہ تعداد پاکستان کے مجموعی ووٹرز کا تقریباً 44فیصد ہے اور نوجوانوں کو صحیح طور پر ادرک حاصل ہے کہ کوئی 8فروری کو ہونے والے انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوسکتا ‘ تاہم عوام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیتے وقت ان جماعتوں کی کارکردگی کو بھی مدنظر رکھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں