"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات سے پارلیمانی سسٹم مضبوط ہوگا

آج منعقد ہونے والے عام انتخابات میں 12کروڑ 85لاکھ سے زائد ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ عوامی مینڈیٹ کی بنا پر رات گئے تک فیصلہ ہو جائے گا کہ اقتدار کس کے پاس جائے گا۔ آج کا دن ملک اور عوام کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ اگرچہ مقدمات اور چند دیگر عوامل کی وجہ سے انتخابی سرگرمیوں میں جوش کا فقدان تھا؛ تاہم تمام تر غیریقینی کے باوجود آج عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ آج پوری قوم کی نظریں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر مرکوزہوں گی جس نے تمام تر مشکلات کے باوجود عام انتخابات کے تمام انتظامات بروقت مکمل کیے ہیں۔ گزشتہ روز 26کروڑ بیلٹ پیپرز اور دیگر انتخابی مواد کی ترسیل مکمل ہو گئی تھی۔ اس بار انتخابی مانیٹرنگ کے لیے ایک خصوصی کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔ پولنگ کے حوالے سے شکایات کے اندراج کے لیے الیکشن کمیشن میں پہلی بار وٹس ایپ کا استعمال کیا جائے گا۔ اس بار الیکشن مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے الیکشن کمیشن میں نتائج جمع کیے جائیں گے۔ اگرچہ بعض حلقوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے؛ تاہم الیکشن کمیشن نے اسے آر ٹی ایس سے بہتر قرار دیا ہے۔ آر ٹی ایس کا تجربہ 2018ء کے الیکشن میں فلاپ ہو گیا تھا۔ اس وقت کی نادراانتظامیہ نے اس سسٹم کے فلاپ ہونے کی صورت میں کسی متبادل کا بندوبست بھی نہیں کیا تھا جس سے الیکشن کمیشن تنقید کی زد میں رہا اور آج تک آر ٹی ایس کے حوالے سوالات اٹھائے جاتے ہیں؛ تاہم موجودہ سسٹم کو آسان بنایا گیا ہے اور اگر پھر بھی کسی وجہ سے سسٹم میں دشواری پیش آئی تو متبادل انتظامات کے تحت پریزائیڈنگ افسران فارم 45 کو ریٹرننگ افسران تک پہنچانے کے پابند ہوں گے۔
آج منعقد ہونے والے انتخابات کو 100کے قریب غیر ملکی مبصرین مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے کل 17816امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں 11ہزار آزاد امیدوار ہیں۔ ملک بھر میں نوے ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں جبکہ حساس ترین پولنگ سٹیشنوں‘ جن کی تعداد 1750بتائی جا رہی ہے‘ پر کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیںجبکہ پولنگ کے دوران امن و امان کی صورتحال یقینی بنانے کیلئے آئین کے آرٹیکل 245کے تحت حساس پولنگ سٹیشنوں پر فوج کے دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ حالیہ چند روز کے دوران خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے متعدد حملوں کے سبب سکیورٹی خدشات بڑھ گئے ہیں۔گزشتہ روز بھی بلوچستان کے ضلع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں سیاسی جماعتوں کے انتخابی دفاتر پر دھماکوں کے نتیجے میں 24افراد جاں بحق جبکہ 30 زخمی ہوگئے تھے۔پانچ فروری کو خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن میں ایک پولیس سٹیشن پر دہشت گردوں نے رات گئے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 10 پولیس اہلکار شہید اور چھ زخمی ہوگئے تھے۔اس سے قبل دو فروری کو بلوچستان کے علاقے مچھ اور کولپور میں سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے تین حملوں کو ناکام بنایا اور تین روز تک جاری رہنے والے کلیئرنس آپریشن کے دوران 24 دہشت گرد مارے گئے جبکہ چار سکیورٹی اہلکار اور دو شہری شہید ہوئے تھے۔گزشتہ ماہ بھی دہشت گرد حملوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ ان سکیورٹی خدشات کے پیش نظر سکیورٹی کے فول پروف انتظامات بہت ضروری ہیں۔
10لاکھ سے زائد پولنگ عملہ آج ڈیوٹی سرانجام دے گا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اور صوبائی حلقوں کے ابتدائی نتائج کل یعنی 9فروری کو دن دو بجے تک جاری کر دیے جائیں گے‘ اس لیے عوام سوشل میڈیا کے گمراہ کن پروپیگنڈے پر توجہ نہ دیں جبکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ووٹ ڈالنے کیلئے اصلی شناختی کارڈ لازمی قرار دیا گیا ہے۔اُمید ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی۔ انتخابات میں فاتح قرار پانے والے آزاد اراکین اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکیں گے۔ اگر وہ چاہیں تو اپنا علیحدہ گروپ بنا کر بھی پارلیمانی نظام کا حصہ بن سکتے ہیں لیکن بہرحال وہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ آنے والی حکومت کے لیے سب سے مشکل مرحلہ ملکی معیشت کی بحالی ہے جس کے لیے کابینہ کا فعال‘ مختصر اور ماہرین پر مشتمل ہونا بہت ضروری ہے۔
آئین کے آرٹیکل 223کے تحت عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے اراکینِ اسمبلی کا چودہ دن کے اندر گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جائے گا اور امید ہے کہ 22سے 25فروری تک قائدِ ایوان حلف اُٹھا لیں گے اور نگران حکومتیں خودبخود تحلیل ہو جائیں گی۔ شنید ہے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے الیکشن کے بعد مزاحمتی تحریکوں کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی اور ایوان میں ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی پر توجہ دی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کو بھی فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی کے مطابق انتخابی اصلاحات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اسی طرح عدالتی اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔
2021-22ء میں بنگلہ دیشی طرزِ حکومت اور ان کا انتخابی نظام کافی زیرِ غور رہا۔ بنگلہ دیش کا انتخابی نظام‘ جس کے تحت یکم جنوری 2009ء کے انتخابات ہوئے تھے اور جنہیں بین الاقوامی اداروں نے صاف و شفاف اور غیر جانبدار قرار دیا تھا‘ اس نظام میں برسر اقتدار حکومت میں آئین و قوانین میں ایسی ترامیم کیں جو اس کے اپنے مفاد میں تھیں‘ اسی لیے ہمارے ہاں اس سسٹم کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا مگر ہمارے بعض دانشور اب بھی اُس انتخابی نظام کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔ میں نے چونکہ اُس نظام کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہوا ہے لہٰذا میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہمارے ملک میں بنگلہ دیشی ماڈل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جہاں تک الیکشن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کا تعلق ہے تو اس کا تعین کسی حد تک کابینہ کے تشکیل کردہ کمیشن کی رپورٹ پر منحصر ہے۔ 9مئی کے واقعات میں تحریک انصاف کے کلیدی رہنماؤں کا ذکر بارہا سننے میں آ چکا ہے۔ کئی رہنما تو ابھی تک روپوش ہیں‘ کچھ جیل میں ہیں۔نگران وفاقی وزیر قانون و انصاف کی سربراہی میں کابینہ کی خصوصی کمیٹی کا جو اعلیٰ سطحی کمیشن بنا‘ اس کی رپورٹس کی روشنی میں اگر وفاقی حکومت ذمہ دار سیاسی جماعت کا کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو آرٹیکل 17 کے تحت وہ سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کی پابند ہے۔ بانی پی ٹی آئی 9مئی کے سانحہ پر مذمتی بیان دینے سے گریز پا رہے حالانکہ سابق چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی کو 24گھنٹوں کے اندر اندر ضمانت دیتے ہوئے ان کو پروٹوکول بھی دلایا تھا۔ ان تمام سہولتوں کے باوجود بانی تحریک انصاف نو مئی کے واقعات کے حوالے سے مذمتی بیان جاری کرنے سے گریزاں رہے۔
امید ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی ایسی جماعت برسرِ اقتدار آئے گی جو عوام کی حمایت یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کو معاشی و سیاسی استحکام کی جانب بھی گامزن کر سکے۔ مخلوط حکومت سے سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں سینیٹ کے الیکشن بھی ہو رہے ہیں‘ 12مارچ تک چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی ہو جائے گا۔آنے والی حکومت کو 30 دن کے اندر اندر آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت صدارتی انتخاب کا شیڈول جاری کرنا ہو گا۔ اُمید ہے کہ 15مارچ تک صدارتی انتخاب کا شیڈول جاری کرکے اپریل کے پہلے ہفتے میں یہ عمل بھی مکمل ہو جائے گا۔ اس بار کسی ایسی شخصیت کو صدرِ مملکت کے منصب پر فائز ہونا چاہیے جو بہتر وژن کی مالک ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں