"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی نتائج پر اعتراضات، غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی

امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین Michael McCaul‘ یورپی یونین مبصرین کمیشن اور کامن ویلتھ مبصرین گروپ نے پاکستان کے حالیہ عام انتخابات میں بے قاعدگیوں پر تحقیقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے‘ جبکہ بین الاقوامی ضابطۂ اخلاق کے مطابق ان مبصرین کی جائزہ رپورٹ کے حوالے سے متعلقہ ملک اپنے قواعد و ضوابط کے مطابق ہی فیصلہ کرتا ہے۔ انتخابی نتائج کی ترسیل میں غیرمعمولی تاخیر‘ ریٹرننگ افسران کے انتظامی اقدامات کے فقدان کی وجہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتظامات پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین نے حالیہ عام انتخابات کے حوالے سے اپنی جائزہ رپورٹس میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے‘ اس پر تحقیقاتی کمیشن مقرر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسا کرنے سے ملکی قوانین کو زک پہنچ سکتی ہے۔اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات کے دوران یورپی یونین کے مبصرین کا ایک وفد پاکستان آیا تھا ۔ صدر پرویز مشرف نے ان کو صدارتی پروٹوکول دیتے ہوئے ایوانِ صدر میں ملکی صحافیوں کی موجودگی میں مدعو کیا تھا۔ اس وفد نے اُس الیکشن کے حوالے سے کافی زہریلے تبصرے کیے تھے‘ انہوں نے صدر پرویز مشرف پر ذاتی حملے بھی کیے‘ ان کی حکومت کی رِٹ پر بھی سوال اٹھائے حتیٰ کہ چیف الیکشن کمشنر کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا۔ اس وفد سے بریفنگ میٹنگ سے پیشتر صدر پرویز مشرف نے مجھے خصوصی طور پر ایوانِ صدر میں مدعو کیا تھا اور اس بابت مکمل بریفنگ لی تھی۔ میں نے ان کو انٹرنیشنل ضابطۂ اخلاق کے حوالے سے بریف کیا کہ غیر ملکی مبصرین انتخابی انتظامات میں نقائص‘ عملے کی کوتاہی‘ ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک رسائی میں دشواری اور راز داری کے فقدان کے حوالے سے اپنے مشاہدات پیش کرنے کے مجاز ہیں‘ مگر وہ کسی ملک کے نظامِ حکومت اور الیکشن قوانین پر رائے دینے کا استحقاق نہیں رکھتے‘ لہٰذا صدر پرویز مشرف نے جب یورپی یونین کے مبصرین کے چیئرمین کو اپنی حدود میں رہنے کا مشورہ دیا تو انہوں عالمی ضابطۂ اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سے بہت تیکھے سوال کیے جس پر صدر پرویز مشرف نے ان کو یقین دہائی کرائی کہ ان کی سفارشات کو الیکشن کمیشن اپنی پالیسی کا حصہ بنانے میں آزاد ہے۔ اسی طرح 2008ء کے عام انتخابات کے موقع پر یورپی یونین‘ کامن ویلتھ‘ امریکہ اور دیگر ممالک یہاں تک کہ ملائیشیا کے مبصرین بھی الیکشن کا جائزہ لینے آئے ہوئے تھے۔ میں نے بطور سیکرٹری الیکشن کمیشن ان کے پاکستان میں قیام کے دوران انہیں آئین و قانون کی روشنی میں بریفنگ دی اور ان سے مسلسل رابطے میں رہا۔ مجھے فخر ہے کہ یورپی یونین مبصرین کمیشن کے سربراہ نے 2008ء کے الیکشن کو فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی کے الیکشن قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی کارکردگی کی تعریف کی تھی۔ اسی طرح اقوام متحدہ اور کامن ویلتھ کے سیکرٹری جنرل نے بھی 2008ء کے الیکشن کو جمہوری اقدار کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہارکیا تھا۔ دراصل جب انتخابی عمل کے حوالے سے غیرملکی یا ملکی مبصرین کی رپورٹس حقائق کے برعکس آتی ہیں‘ تو اس میں متعلقہ محکمے کی کمزور بریفنگ کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ بہر حال اب غیرملکی مبصرین کی آرا ء کے مثبت اور منفی پہلوؤں اور ان کے اثرات پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا مؤقف درست ہے کہ یورپی یونین‘ برطانیہ یا امریکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے ‘لیکن پاکستان جیسے ملک کیلئے‘ جس کی معیشت بے تحاشا مشکلات کا شکار ہے اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ڈیفالٹ کا خطرہ پھر سے سر اٹھا سکتا ہے‘ غیر ملکی مبصرین کی رپورٹوں سے صرفِ نظر ممکن نہیں‘ کیونکہ ان رپورٹوں کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے احتیاط برتیں گے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے کا جو وژن پیش کیا ہے‘ ان رپورٹوں سے وہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی مبصرین کی ان جائزہ رپورٹوں کے بعد غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے سے اس لیے گریز کریں گے کیونکہ انتخابی دھاندلیوں کے الزامات سے سیاسی عدم استحکام کے سائے مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔
امریکہ نے پاکستان کے حالیہ انتخابات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتخابی بے ضابطگیوں کی مکمل تحقیقات کو اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے انتخابات میں کرپشن یا فراڈکے الزامات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ پاکستانی عوام کے جمہوری حکومت کے انتخاب کے حق اور ایسی جمہوری منتخب حکومت کی حمایت کرتا ہے جو قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کااحترام کرتی ہو۔ امریکہ نے اسی طرح کے ریمارکس گزشتہ ماہ بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے الیکشن کے حوالے سے بھی دیے تھے جسے بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے مسترد کر دیا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی پوزیشن میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ بنگلہ دیش ایک مضبوط معیشت ہے جبکہ پاکستان معاشی عدم استحکام اور سیاسی خلفشار کا شکار ہے۔ پارلیمنٹ میں کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت نہ ملنے سے پیدا ہونے والی صورتحال سیاسی عدم استحکام میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس وجہ سے بھی پاکستان اس حوالے سے کوئی مضبوط مؤقف دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا۔15فروری 2008ء کو امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کی چیئرپرسن نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران جب انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر کا وزٹ کیا تو میں نے انہیں 2008ء کے انتخابات کے انتظامی معاملات کے حوالے سے ایک مختصر مگر جامع بریفنگ دی تھی۔ الیکشن کے اختتام پر انہوں نے پاکستان کے الیکشن کو فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسیز کے الیکشن سے بھی بہتر قرار دیا اور مجھے جو اعزازی سند دی وہ اب بھی میرے ذاتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اُس موقع پر انہوں نے مجھے ایک قلم بطور تحفہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس قلم سے آپ نے 18فروری کے انتخابی نتائج کے گزٹ نوٹیفکیشن پر دستخط کرنے ہیں۔ پاکستانی حکام کو حالیہ انتخابات کے حوالے سے امریکی رپورٹ کا جائزہ لینا چاہیے۔
حالیہ انتخابات کے نتائج میں رد و بدل کے الزامات‘ سیاسی عدم استحکام اور کسی کمزور حکومت کی تشکیل سے ملک کی معاشی صورتحال پر گہرا اثر پڑے گا۔ گزشتہ کچھ برسوں سے پاکستان غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے اپنی کشش کھو رہا ہے اور اگر نئی منتخب حکومت کے دور میں بھی ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا تو پاکستان میں محدود پیمانے پر آنیوالی سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی رک سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے علاوہ کسی اور شعبے میں کسی بڑی بین الاقوامی کمپنی نے سرمایہ کاری نہیں کی۔ اب تو بعض بڑی بین الاقوامی کمپنیاں بھی اپنا سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل کر رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف ملکی معیشت کمزور ہو گی بلکہ بے روز گاری کا نیا طوفان بھی اٹھے گا۔اس مایوس کن معاشی صورتحال میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی ایک بین الاقوامی کمپنی پاکستان میں 25سے 30ارب ڈالر کی سرمایہ کا ارادہ رکھتی ہے۔یہ کمپنی پاکستان میں متنوع رینج کی الیکٹرک گاڑیاں تیار کرے گی۔ اس کیساتھ ساتھ گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشنوں کا ایک جامع نیٹ ورک بھی قائم کیا جائے گا۔ اس سے نہ صرف ملک میں ہائی ٹیک ٹیکنالوجی ٹرانسفر ہوگی بلکہ مقامی سطح پہ تیارگاڑیوں کو برآمد بھی کیاجاسکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس کمپنی کا ایک وفد یوکے ٹریڈ مشن کے تحت جلد پاکستان آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ متعلقہ حلقوں کو اس سلسلے میں تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ یہ منصوبہ ملکی معیشت کیلئے کافی سود مند ثابت ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں