"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی بدنظمی پر اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا جائے

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کر دیا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومتی عہدوں کے بجائے آئینی عہدوں کے عوض مسلم لیگ (ن) کو مکمل معاونت فراہم کرنے کا وعدہ اور وزیراعظم کے انتخاب میں اعتماد کا ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ عام انتخابات کے بعد حکومت سازی اب آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت تشکیل دینے کا اعلان کر چکی ہے جبکہ عمر ایوب کو وزیراعظم کا امیدوار بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے ساتھ بھی اتحاد کا عندیہ دیا تھا لیکن جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد سے معذرت کر لی ہے۔ حکومت تشکیل دینے میں ناکامی کی صورت میں بھی تحریک انصاف نے ایوان کا حصہ بننے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکینِ قومی اسمبلی ایک مضبوط اپوزیشن تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس صورت میں قائدِ حزبِ اختلاف سمیت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ بھی اُنہی کے پاس جائے گی۔ اس اہم ترین کمیٹی کی چیئرمین شپ سے پی ٹی آئی حکومتی پالیسیوں پر نظر رکھتے ہوئے مربوط احتسابی عمل کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو وسیع تر اختیارات حاصل ہیں‘ جن میں قومی احتساب بیورو‘ ایف آئی اے‘ ایف بی آر اور کسی حد تک الیکشن کمیشن کا آڈٹ کرنے کے اختیارات بھی شامل ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی حکومتی عہدے لینے کے بجائے آئینی عہدوں تک محدود رہتی ہے تو اس صورت میں تشکیل پانے والی حکومت بہت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہو گی۔ بادی النظر میں یہ حکومت ایک اقلیتی حکومت کہلائے گی جس کے سامنے سب سے پہلی اور بڑی مشکل آئی ایم ایف معاہدے کی صورت میں موجود ہو گی۔ مارچ میں آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی معاہدے کی تیسری قسط کی منظوری کے لیے نئی حکومت کو آتے ہی آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عملدرآمد کرنا پڑے گا جس سے ملک میں مہنگائی کا ایسا طوفان برپا سکتا ہے جس کا بوجھ برداشت کرنا نئی حکومت کیلئے آسان نہ ہو گا۔ پیپلز پارٹی جن شرائط پر حکومت کا حصہ بننا چاہتی ہے‘ اس سے حکومت مستحکم نہیں ہو سکے گی اور وہ بین الاقوامی سرمایہ کار‘ جو نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہش مند ہیں‘ وہ اپنا سرمایہ کہیں اور منتقل کر سکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی بات کریں تو وہاں تحریک انصاف نے علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ نامزد کیا ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 86امیدوار پر کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بنتے ہیں تو وہ اپنے جارحانہ طرزِ عمل کی وجہ سے وہاں وفاقی حکومت کو کافی ٹف ٹائم دے سکتے ہیں ‘ بالکل اسی طرح جیسے خان عبدالولی خان نے وہاں ذوالفقار علی بھٹو کی وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دیا تھا۔لیکن حکومت بنانے کیلئے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کو پہلے کسی سیاسی جماعت کیساتھ اتحاد کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف نے کے پی میں بھی جماعت اسلامی کیساتھ اتحاد کا عندیہ دیا تھا لیکن ایک تو جن سیٹوں پر جماعت اسلامی کے امیدوار کامیاب قرار پائے تھے‘ اب پوسٹل بیلٹس کی گنتی کے بعد وہاں جمعیت علمائے اسلام (ف)کے امیدواروں نے میدان مار لیا ہے اور دوسرا‘ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کیساتھ اتحاد سے معذرت کر لی ہے۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ اتحاد مخصوص جگہوں پر نہیں ملک گیر سطح پر کیا جائے۔
ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے بعد بھی سیاسی استحکام قائم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ الیکشن کے پہلے سا سیاسی عدم استحکام اب بھی موجود ہے بلکہ انتخابی نتائج پر اٹھنے والے سوالات اس میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ سلسلہ یہیں ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ حکومت کے قیام کے بعد قومی اسمبلی میں بھی اس حوالے سے آواز اٹھائی جائے گی جس سے پارلیمنٹ کی کارکردگی پر اثر پڑے گا۔ وفاق کیساتھ ساتھ پنجاب حکومت کو بھی اس قسم کے چیلنجز در پیش ہوں گے۔بلوچستان اور سندھ میں صورتحال قدرے بہتر رہے گی۔ وہاں قائم ہونے والی صوبائی حکومتوں کو ان چیلنجز کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جن سے باقی دونوں صوبوں کی حکومتوں کا پالا پڑے گا۔ امید ہے کہ یکم مارچ تک منتخب وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھالیں گے اور صوبوں میں بھی منتخب حکومتیں تشکیل پا چکی ہوں گی اور سات مارچ تک سینیٹ کے انتخابات بھی ہو جائیں گے اور الیکٹرول کالج مکمل ہونے پر صدرِ پاکستان کا انتخاب بھی آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت مارچ میں ہو جائے گا۔آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت صدرِ مملکت کا انتخاب اسمبلیوں کے الیکشن کے بعد 30 دنوں کے اندر اندر کرانا لازمی ہے‘ لہٰذا امکان ہے کہ نو مارچ تک صدرِ مملکت کا انتخاب بھی ہو جائے گا۔ وفاق میں حکومت سازی کا اعلان کرنیوالی اتحادی جماعتوں نے آصف علی زرداری کو صدرِ مملکت کیلئے نامزد کیا ہے۔ آصف علی زرداری جہاندیدہ سیاست دان ہیں۔ انکا مفاہمتی نظریہ ان کی کامیابی کی ضمانت ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ سادہ اکثریت سے صدرِ مملکت منتخب ہو جائیں گے۔آصف علی زرداری صدرِ مملکت منتخب ہونے کے بعد مفاہمتی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور ان کے قریبی ساتھیوں سے مفاہمت کی کوشش کرسکتے ہیں جس طرح صدر ایوب خان نے عوامی دباؤ برداشت نہ کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن‘ جو اگرتلہ سازش کیس میں غداری کا مقدمہ بھگت رہے تھے‘ انہیں اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں کو اچانک 12 مارچ 1969ء کو رہا کر دیا تھا‘ ان کے خلاف مقدمات واپس لے لیے تھے۔ جس کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے اسلام آباد میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی‘ لیکن اس موقع پر صدر ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمن سے ہاتھ نہیں ملایا اور یہ ریمارکس دیے کہ انہیں عوامی دباؤ کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا پڑا ‘وگرنہ وہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں کہ اگرتلہ سازش کیس ایک حقیقت ہے۔ اس گول میز کانفرنس کے بعد صدر ایوب خان نے صدارت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا اور سیاستدانوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے 25مارچ 1969ء کو ملک میں دوبارہ مارشل لاء لگ گیا۔
اب آئیے وزیراعظم کے انتخاب کی طرف۔ نواز شریف نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کر کے آصف علی زرداری کیلئے صدارت کی راہ ہموار کر دی ہے اور قومی اسمبلی کے سپیکر کی اہم ترین پوزیشن بھی پیپلز پارٹی کے حصے میں آتی دکھائی دیتی ہے۔ممکن ہے کہ سینیٹ کی چیئرمین شپ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آ جائے یا متحدہ قومی موومنٹ بھی اس کی دعویدار بن سکتی ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے اور آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوگا۔چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوگا جبکہ وزیراعظم کا انتخاب قومی اسمبلی میں ڈویژن کے ذریعے اوپن الیکشن میں ہو گا۔آئین کے آرٹیکل 91 کی شق چار کے مطابق وزیراعظم منتخب ہونے کیلئے قومی اسمبلی کے مجموعی ممبران میں سے نصف سے زیادہ اراکینِ قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنا لازمی ہے۔اس مقصد کیلئے اتحادی جماعتوں کو 134 منتخب اراکین کی ضرورت ہوگی جبکہ اتحادی جماعتوں کو 158 سے زائد منتخب اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ اسی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلئے بھی 176 کے قریب اراکینِ صوبائی اسمبلی کی حمایت درکار ہو گی۔موجودہ سیاسی تناؤ میں کسی بھی جماعت کیلئے یہ تعداد پوری کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔اس ساری منصوبہ بندی میں نواز شریف مائنس ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومتی امور میں ان کا کردار ماضی کے کانگریسی رہنما موہن داس گاندھی کی طرح محدود ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں