"KDC" (space) message & send to 7575

مخلوط حکومت اور عدم اعتماد کا خدشہ

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے انٹر ویوحالیہ دنوں ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں۔ مولانا صاحب نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد قمر جاوید باجوہ کے ایما پر لائی گئی تھی اور جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید ان سے رابطے میں تھے اور ان کی موجودگی میں سیاسی جماعتوں کو بلایا گیا اور سب کو ہدایات دی گئیں کہ کس طرح وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی ہے اور سسٹم کے اندر رہ کر ان کی حکومت کو رخصت کرنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے جنرل (ر) فیض حمید کے تانے بانے مارچ 2022ء کی تحریک عدم اعتماد سے ملا ئے ہیں مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جن دنوں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی‘ اُس وقت جنرل فیض حمید صاحب پشاور میں تعینات تھے۔ انہوں نے خو بھی مولانا فضل الرحمن کے اس دعوے کی تردید کی ہے‘ جس کے مولانا فضل الرحمن نے ایک اور انٹرویو میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ فیض حمید صاحب کا نام غلطی سے لیا تھا۔بہرکیف فیض حمیدصاحب کے بارے میں یہ عام تاثر تھا کہ موصوف بانی پی ٹی آئی کے بہت نزدیک تھے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ فیض حمید صاحب نے تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کو ختم کرنے کے لیے الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ کچھ دیگر اہم شخصیات نے بھی چیف الیکشن کمشنر پر اسی قسم کا دباؤ ڈالا تھا۔ جب چیف الیکشن کمشنر نے دباؤ کو مسترد کر دیا تو ان کی خواہش پر ان کی سکیورٹی کے خصوصی انتظامات حساس ادارے نے سنبھال لیے ۔ حیرانی ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے تحریک عدم اعتماد کی پشت پناہی کرنے والوں میں جنرل فیض حمید کا نام کیسے لیا؟ بہرکیف اس مؤقف سے بانی پی ٹی آئی کے اس مؤقف کو تقویت ملے گی کہ ان کی حکومت امریکی ایما پر تبدیل کی گئی اور اس سازش میں پاکستان کی اہم شخصیات شامل تھیں۔مولانا فضل الرحمن کو حساس معاملات پر لب کشائی اور سیاسی معاملات میں سابقہ عسکری قیادت کو ملوث نہیں کرنا چاہیے تھا۔ الیکشن میں شفافیت کے حوالے سے اُن کی جو شکایات یا اعتراضات ہیں‘ وہ اس کا اظہار کرنے میں حق بجانب ہیں‘ مگر حقائق کو توڑ مروڑ کر دیگر مدعے اٹھانا درست نہیں۔ مولانا صاحب کو حقائق بیان کرنے چاہئیں نہ کہ ایسی باتیں کریں جس سے شبہات میں اضافہ ہو ۔ اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ فیض حمید صاحب عمران خان سے متاثر رہے اور شاید اب بھی ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہوں۔ تاہم مولانا فضل الرحمن نے بغیر تحقیق کے جو ''انکشافات‘‘ کیے‘ اس سے ان کی اپنی شخصیت ہی مجروح ہوئی۔
مولانا فضل الرحمن نے جولائی 2018ء کے انتخابات کے موقع پر نہایت سخت موقف اختیار کیا تھا اور بعد ازاں صدارتی الیکشن میں بھی امیدوار بن کر سامنے آئے تھے جس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آصف علی زرداری نے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کر دیا اور شہباز شریف بھی اس دوڑ میں شامل تھے‘ بہرکیف 9 ستمبر 2018ء کو ڈاکٹر عارف علوی صدارتی انتخاب میں آسانی سے کامیاب ہو گئے۔
8 فروری 2024ء کے الیکشن کے نتائج سامنے آ چکے ہیں اور ان کے خلاف دھاندلی کے الزامات پر احتجاجی سلسلہ بھی جاری ہے‘ تاہم اس احتجاج کا ایک تحریک بننا مشکل ترین مرحلہ ہے۔ 29 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے کا امکان ہے اور امید ہے کہ شہباز شریف آسانی سے وزیراعظم کے منصب پر فائز ہو جائیں گے۔ اس وقت ان کو اسمبلی میں 180 کے قریب ارکان کی حمایت حاصل ہے اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان کی ہمدردیاں خریدنے کا سلسلہ جاری ہے ؛چنانچہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی تعدادکم ہو رہی ہے۔ البتہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت آسانی سے تشکیل پا جائے گی۔ بانیٔ تحریک انصاف نے عمر ایوب خان کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے مگر ان کی کامیابی کا امکان بظاہر نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ پنجاب اور وفاق میں ان کے ارکان اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ مگر یہ مد نظر رہنا چاہیے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف قانون سازی اور بجٹ کی منظوری کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدوں اور مہنگائی‘ بے روزگاری پر بھی سخت ترین ردعمل ظاہر کرے گی ‘ یوں اتحادی حکومت مسلسل دباؤ میں رہے گی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اتفاق رائے کے مطابق آصف علی زرداری مارچ کے دوسرے ہفتے میں صدرِ مملکت منتخب ہو جائیں گے اور اس سے پیشتر سینیٹ کے انتخابات مارچ کے پہلے ہفتے میں منعقد ہو جائیں گے۔ امید ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پر بھی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کوئی اتفاق رائے کر لیں گی۔ اس کے باوجود بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت ملکی تاریخ کی کمزور ترین حکومت ثابت ہو گی۔ پیپلز پارٹی اگرچہ حکومت سازی میں مسلم لیگ (ن) کو سپورٹ کرے گی مگر یہ حکومت کا حصہ نہیں ہو گی اور اس کی ایسی پالیسی جو پیپلز پارٹی کے مفادات سے میل نہیں کھائے ہو گی‘ منظوری حاصل نہیں کر پائے گی۔اگرچہ اطلاعات ہیں کہ پیپلز پارٹی نے کابینہ کا حصہ بننے پر نیم رضامندی ظاہر کی ہے مگر اتحاد کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ یہ آگے چل کر معلوم ہو گا۔
اس وقت یہی نظر آ رہا ہے کہ جب اتحادی حکومت شدید دباؤ میں آئے گی تب متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بھی اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر اٹھارہویں ترمیم کو تبدیل کرنے اور آئین میں ترامیم کر کے لوکل گورنمنٹ کو مضبوط اور فعال کرنے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ ایم کیو ایم وزیراعظم جیسے اختیارات میئر کو تفویض کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 141(A) میں ترامیم کی خواہش مند ہے۔ علاوہ ازیں وہ مشترکہ مفادات کونسل کے اختیارات میں اضافہ کر کے صوبوں کی من مانی کارروائیوں کا سدباب کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) سے اٹھارہویں ترمیم پہ نظرثانی کا وعدہ کر چکی ہے۔ حکومت سازی کے بعد اگر اس معاہدے کے تحت ایم کیو ایم پاکستان نے اٹھارہویں ترمیم کو بے اثر کرنے اور صوبوں کی خودمختاری کو سوالیہ نشان بنا دیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کبھی بھی اس ترمیمی بل کی حمایت نہیں کرے گی اور اگر ایم کیو ایم اپنے معاہدے پر عملدرآمد نہ کر سکی تو عوامی دباؤ کے تحت اسے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنا پڑ سکتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی بھی اس معاملے کو ایشو بنا کر حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ سکتی ہے جس سے شہباز شریف کی حکومت ازخود عدم اعتماد کا شکار ہو جائے گی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ مخلوط حکومت ہر کام کے لیے اتحادیوں کی حمایت کی محتاج ہو گی اور اس کا سب سے بڑا کام تمام اتحادیوں کو یکجا رکھنا ہو گا۔ ایسی صورتحال میں یہ اپنی کارکردگی اور معاشی صورتحال پر زیادہ توجہ نہیں دے سکے گی جس سے عوامی دبائو بھی بڑھتا جائے گا۔ ان حالات میں صاف نظر آ رہا ہے کہ مخلوط حکومت زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکے گی اور تخمینہ ہے کہ ملک ایک سال بعد پھر سے نئے انتخابات کی طرف چلا جائے گا۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ مخلوط حکومت میں لگ بھگ ایک سال بعد ملک کی پارلیمانی سیاست انتشار کا شکار ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں