"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت سازی تاخیر کا شکار کیوں؟

وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاملات طے پاگئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مذاکراتی وفد نے مشترکہ پریس کانفرنس میں وفاق میں مل کر حکومت سازی کا اعلان کرتے ہوئے شہباز شریف کو وزیر اعظم اور آصف علی زرداری کو صدرِ مملکت کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔ طے شدہ سمجھوتے کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی (ن) لیگ سے ہوگا اور ڈپٹی سپیکر پیپلز پارٹی سے۔ سندھ اور بلوچستان کی گورنر شپ (ن) لیگ کو ملے گی جبکہ پنجاب کا گورنر پیپلز پارٹی سے ہو گا۔ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوگی۔ چیئرمین سینیٹ کے معاملات بھی طے پا گئے ہیں‘ چیئرمین پیپلز پارٹی اور ڈپٹی چیئرمین مسلم لیگ (ن) سے ہو گا۔ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ سیاسی جماعتوں میں مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔ وفاق میں حکومت سازی کا اعلان کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے لیے قائم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی کمیٹیوں نے بڑی محنت کے بعد اپنا کام مکمل کیا ہے اور ہم حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ اس مخلوط حکومت کی تیسری بڑی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے تین نکاتی آئینی ترامیم کی تجویز پیش کر رکھی ہے لیکن اتحادی حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہو گی کہ وہ ان ترامیم کو منظورا کرا سکے کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان کی تجویز کردہ ترامیم پیپلز پارٹی کے منشور سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ بادی النظر میں اتحادی حکومت پر خطرات کے بادل منڈلاتے ہی رہیں گے۔ ممکن ہے کہ فی الحال پیپلز پارٹی مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کو ووٹ دے کر وزیراعظم بنوا دے لیکن پیپلز پارٹی کسی بھی وقت اپنی حمایت واپس کھینچ سکتی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہر دم تیار رہیں گے۔
آٹھ فروری کے عام انتخابات کے نتائج پر چھا جانے والی دھند آہستہ آہستہ چھٹ رہی ہے۔ تقریباً چھ کروڑ سے زائد ووٹروں نے عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو منقسم مینڈیٹ دے کر ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کسی بھی جماعت کو اتنی اکثریت میسر نہیں آ سکی کہ وہ وفاق میں تنہا اپنی حکومت بنا سکتی۔ جبکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت میں ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد میں بڑے فیصلے کرنے کی سکت موجود نہیں ہے۔ سب جماعتیں خواہشِ اقتدار کی اسیر نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً دو ہفتے تک وفاق میں تقسیمِ اقتدار کا فارمولہ تشکیل نہیں پا سکا۔ حالیہ عام انتخابات پر ریاست کے 48 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں جبکہ مجموعی اخراجات کا تخمینہ تقریباً 152 ارب روپے ہے۔ قومی اسمبلی کے امیدواروں نے 52 ارب 54 کروڑ روپے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے 12 ہزار 583 امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم پر لگ بھگ 51 ارب روپے کے اخراجات کیے ہیں۔ ایسے حالات میں جب مہنگائی‘ بیروزگاری اور غربت تاریخی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے‘ معاشی بہتری کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے جس کے آثار بظاہر نظر نہیں آ رہے۔
تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین نے اپنے پارلیمانی گروپ کی تشکیل کے لیے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرکے مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 224 اور الیکشن ایکٹ2017ء کی دفعہ 104 کے تحت ان کی درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ ویسے بھی یہی نظر آ رہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس اہم ترین قانونی مسئلے کو حل کرسکتی ہے اور چونکہ معاملہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے گرد گھوم رہا ہے تو ممکن ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 104کی تشریح کرتے ہوئے اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو مخصوص نشستوں کا کوٹہ الاٹ کردے تاکہ یہ اراکین مطمئن ہو سکیں اور ملک سیاسی استحکام کی جانب گامزن ہو سکے۔
بین الاقوامی جمہوری اصولوں اور قومی مفاد کے برعکس جس انداز سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں‘ انتخابی تنازعات ختم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ جس مصنوعی انداز میں حکومت سازی ہوتی دکھائی دے رہی ہے‘ اس کے پیش نظر یہ خدشہ موجود ہے کہ چند ہی مہینوں میں ملک میں سیاسی عدم استحکام کی ایک نئی لہر اُٹھ سکتی ہے۔ پارلیمانی اور سیاسی نظام اس وقت خطرے کی زد میں ہیں۔ وفاق اور صوبوں کی سطح پر نگران حکومتوں نے معاشی نظام کو فعال رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے‘ بالخصوص پنجاب کی کارکردگی اس حوالے سے اطمینان بخش رہی۔ وفاق میں حکومت سازی تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے اس بار فیڈریشن کی چاروں اکائیوں یعنی صوبوں میں حکومت کی تشکیل وفاق سے پہلے ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ چاروں صوبے اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہ کر حکومت سازی کر رہے ہیں۔ وفاق سے قبل صوبوں میں جو حکومتیں بننے جا رہی ہیں‘ اٹھارہویں ترمیم کے تناظر میں ان سے فیڈریشن کے بجائے کنفیڈریشن کا راستہ ہموار ہو رہا ہے لہٰذا ملک کی وحدت اور سالمیت کے پیش نظر پہلے وفاق میں حکومت سازی ہونی چاہیے۔ عوام نے حالیہ عام انتخابات میں آزاد اراکین کی کثیر تعداد کو پارلیمنٹ میں بھجوایا ہے‘ یہی آزاد اراکین اب وفاق اور صوبوں میں حکومتوں کی تشکیل میں ایک بڑی مشکل بن کر کھڑے ہیں۔ یہ آزاد اراکین اگر اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں تو یہ ایک مضبوط اپوزیشن تشکیل دیں گے۔ اس صورت میں وفاقی حکومت کیلئے نئی قانون سازی بہت مشکل ہو گی اور اس کی حاکمیت بھی خطرے میں پڑی رہے گی۔ لہٰذا حکومت کی تشکیل سے پہلے سب سیاسی جماعتوں کیلئے انتخابی نتائج کو قابلِ قبول بنانے کیلئے فارم 45 اور فارم 47 کا مسئلہ حل کرنا ہو گا۔
سینیٹ میں حالیہ عام انتخابات پر ہونے والے طویل ترین مباحثے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ الیکشن 2024ء کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے انتظامات خاطر خواہ نتائج فراہم نہیں کر سکے۔ سابق کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ کے دھاندلی میں ملوث ہونے کے اعتراف نے صورتحال کو مزید متنازع بنا دیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہوں؛ تاہم اگر وہ انتخابات میں منظم دھاندلی کے ثبوت پیش نہ کر سکے تو انہیں بے بنیاد الزامات پر سخت سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب راولپنڈی ڈویژن کے چھ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران نے سابق کمشنر راولپنڈی ڈویژن کے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ اس ڈویژن کے 13ریٹرننگ افسران نے اپنے جوابات ابھی الیکشن کمیشن کو جمع کرانے ہیں۔ یہ بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ سابق کمشنر راولپنڈی نے انتخابی نتائج میں دھاندلی کے الزامات ہی نہیں عائد کیے بلکہ انہوں نے ''اعترافِ جرم‘‘ کیا ہے کہ ان کے حکم پر 13 قومی اسمبلی کے حلقوں کے نتائج تبدیل کیے گئے۔ الزامات اور اعترافِ جرم میں واضح فرق ہے لہٰذا الیکشن کمیشن کو ان حلقوں کے ریٹرننگ افسران سے اصل فارم45‘ 46 اور 47حاصل کرکے ان کا موازنہ کرنا چاہیے۔ اس موازنے میں اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ فارم 47پر جو غیر حتمی نتیجہ الیکشن کمیشن کو بھجوایا گیا تھا‘وہ فارم 45 کے عین مطابق تھا اور فارم 47 میں کسی قسم کی بھی ٹیمپرنگ نہیں کی گئی اور فارم 46 کے مطابق استعمال شدہ بیلٹ پیپرز اور غیر استعمال شدہ بیلٹ پیپرز کا ریکارڈ بھی کلیئر ہے تو کمشنر راولپنڈی کا اعترافِ جرم کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور ان کے خلاف الیکشن ایکٹ کی دفعہ 178کے تحت کارروائی عمل میں آ سکتی ہے؛ تاہم اگر یہ الزامات درست ہیں تو پھر بلا تاخیر کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں