"KDC" (space) message & send to 7575

آئی ایم ایف کو خط‘ پی ٹی آئی پر سوالیہ نشان

عام انتخابات کے انعقاد کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص سیٹوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر چکا ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کی حلف برداری کا مرحلہ بھی طے پا چکا اور آج صوبہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے نو منتخب ارکان بھی حلف اٹھا لیں گے۔ حالیہ انتخابات سیاسی استحکام کے حوالے سے بہت سی چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں مگر کچھ سیاسی جماعتیں اپنے گروہی مفادات کیلئے ہر حد پار کرنے کے درپے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کی جانب سے آئی ایم ایف کو حالیہ الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات تک پاکستان کو کسی بھی سہولت کی توسیع روکنے کیلئے لکھے جانے والے خط سے سیاسی صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط کو نظرانداز کردیا جائے گا اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔ جمعرات کو پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے یہ انکشاف کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے جبکہ جمعہ کے روز اڈیالہ جیل کے کمرۂ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے خود اس بات کی تصدیق کر دی اور بتایا کہ عالمی مالیاتی ادارے کو خط لکھا جا چکا ہے اور شاید آج خط پہنچ گیا ہو گا۔ آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن نے ایک بریفنگ میں مذکورہ خط کے حوالے سے کہا کہ وہ جاری سیاسی امور پر تبصرہ نہیں کریں گی؛ البتہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ پالیسیوں پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔ اس تناظر میں امید کی جا سکتی ہے کہ آئی ایم ایف حکام اس خط کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے؛ تاہم آئی ایم ایف کو خط بھیجنے کا آئیڈیا خوفناک اور سنگین سازش ہی قرار دی جا سکتی ہے۔ گزشتہ پی ڈی ایم دورِ حکومت کے دوران بھی پی ٹی آئی دور کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے اس وقت کے وزرائے خزانہ سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی استدعا کی تھی۔ بعد ازاں شوکت ترین سینیٹ کی نشست سے مستعفی ہو کر درمیان سے نکل گئے تھے اور اب تحریک انصاف کے بانی چیئرمین نے داخلی سیاست اور الیکشن میں عالمی ادارے کو دخل اندازی کی دعوت دے کر پاکستان کو معاشی بحران میں مبتلا کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔شاید عمران خان اور ان کی ٹیم کے ارکان کو آئی ایم ایف کے طریقہ کار سے واقفیت نہیں ہے۔ آئی ایم ایف منتخب حکومت ہی سے بات چیت کرے گا اور اسی سے آئندہ کے معاہدے طے پائیں گے۔ آئی ایم ایف کو پاکستان کے الیکشن یا داخلی سیاسی معاملات میں دھکیلنے کی کوشش بین الاقوامی مسلم قوانین اور عالمی ادارے کے رولز آف بزنس کے تحت بھی درست نہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کے حالیہ الیکشن کے بارے میں رائے دہی کا بھی مجاز نہیں ہے۔
7 جنوری کو بنگلہ دیش میں اس طرح انتخابات ہوئے کہ دھاندلی کی بدترین مثالیں قائم کی گئیں، ووٹرز ٹرن آئوٹ 40 فیصد سے بھی کم رہا جبکہ بنگلہ دیش کی صف اول کی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ اس کے باوجود کہ امریکہ‘ یورپی یونین اور برطانیہ کی کامن ویلتھ تنظیم نے بنگلہ دیش کے انتخابات کو یکطرفہ قرار دیا‘ بنگلہ دیش کی وزیراعظم تمام تر عالمی ردعمل‘ ریمارکس‘ تجاویز اور سفارشات کو مسترد کر کے اپنی حکومت کو آگے لے جانے میں کامیاب رہیں۔ پاکستان کی حکومت بھی امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی یونین کے وہ تمام ریمارکس جو حالیہ انتخابات کے حوالے سے سفارشات پر مبنی تھے‘ کو مسترد کر چکی ہے۔ اب اگر تحریک انصاف آئی ایم ایف کو انتخابی اور داخلی سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش کرے گی تو پھر منتخب حکومت سیاست سے بالاتر ہو کر وزارتِ داخلہ کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کی شفافیت کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لانے کی کوشش کی لیکن انتظامیہ کے ماتحت ریٹرننگ افسران نے الیکشن قوانین سے نابلدی کی وجہ سے الیکشن کو فام 45 اور فارم 47 کے تضاد سے آلودہ کر دیا۔ حالانکہ فارم 45 کی بنیاد ہی پر فارم 47 پر غیر حتمی مگر مکمل نتیجہ تیار کیا جاتا ہے اور اس دوران اہم ترین دستاویز‘ فارم 46 بھی خاصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس میں بیلٹ پیپرز کا مکمل کائونٹ اور انتخابی فہرست کا ریکارڈ محفوظ رکھا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہیے کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق انتخابی حقائق جاننے کیلئے جب الیکشن سے متعلق رپورٹ تیار کرے تو ان تمام ریٹرننگ افسران کے خلاف ضابطے کی کارروائی کرے جن کی وجہ سے فارم 45 اور فارم 47 کا تنازع کھڑا ہوا۔ اسی طرح الیکشن ٹریبونلز کے جو فیصلے کامیاب ہونے والے ارکانِ اسمبلی کے خلاف آئیں‘ ان کے حوالے سے بھی ریٹرننگ افسران کے خلاف الیکشن ایکٹ کی مجوزہ دفعات کے تحت الیکشن لینا چاہئے اور اس بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے اہم فیصلوں کو نظیر بنایا جا سکتا ہے۔ اب چونکہ الیکشن کے نتائج پر محاذ آرائی کا سامنا ہے لہٰذا الیکشن کمیشن کو آئندہ انتخابات کو ان تمام کوتاہیوں سے محفوظ بنانے کیلئے ابھی سے کام کرنا ہو گا۔
امید ہے کہ 2 یا 3مارچ تک وزیراعظم کا انتخاب ہو جائے گا اور شنید ہے کہ اس کے فوری بعد سینیٹ کے انتخابات کے بجائے صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا جو 9 مارچ کو ہونا طے پایا ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو سکے کیونکہ سینیٹ کے 52 ارکان کی آئینی مدت 11مارچ کی رات 12 بجے ختم ہو رہی ہے‘ لہٰذا ایسے ارکانِ سینیٹ‘ جو دو دن بعد ریٹائر ہو رہے ہوں‘ صدارتی انتخاب میں ان کے ووٹ سے صدر کا انتخاب متنازع ہو جائے گا۔ اگرچہ آئینی طور پر صدر کے انتخاب کے لیے درکار الیکٹورل کالج موجود ہو گا مگر اس الیکشن کے محض دو دن بعد ایوانِ بالا کے نصف کے قریب ارکان ریٹائر ہو جائیں گے‘ لہٰذا ان سے صدارتی ووٹ حاصل کرنا غیر مناسب سمجھا جائے گا۔ ویسے شیڈول کے مطابق سینیٹ کا الیکشن سات مارچ کو کرایا جا سکتا ہے اور بعد ازاں 10 مارچ کو صدر کا انتخاب بھی عمل میں لایا جا سکتا ہے اور 12مارچ کو چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ تمام انتخابات کا مرحلہ طے ہونے پر سیاسی طوفان کم ہو جائے گا اور ارکانِ اسمبلی پارلیمنٹ لاجز اور دیگر مراعات کے حصول میں مگن ہو جائیں گے۔
ان دنوں آئی ٹی کی دنیا میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے اہم پیش رفت ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز مجھے لاہورمیں ایک نجی یونیورسٹی میں بطور مہمانِ خصوصی جانے کا اتفاق ہوا۔ مصنوعی ذہانت کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے میں نے کہا کہ دنیا بھر کے ماہرین کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کی حشر سامانیاں جمہوریت کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے محض لوگوں کی ملازمتیں اور کمپنیوں کے مستقبل ہی خطرے میں نہیں ہیں بلکہ سبھی کچھ دائو پر لگ چکا ہے۔ انسانی تہذیب بھی مٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس سے نہ صرف جمہوریت خطرے میں ہے‘ پارلیمانی نظام بھی اس کی زد میں آ چکا ہے اور اب اس کی مدد سے انتخابی عمل پر اثر انداز ہو کر کسی بھی خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ٹولز کے ذریعے پورے سسٹم کو یرغمال بنایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے یونیورسٹیوں میں جو درس دیا جا رہا ہے اور مذہبی کتابوں کو عالمگیر سطح پر جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے اس پر مذہبی رہنمائوں کو بھی آگے آنا چاہئے۔ اگر انہوں نے مصنوعی ذہانت کے مضرات پر فوری غور و خوض نہ کیا تو معاشرے پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور خدشہ ہے کہ نوجوانوں میں مذہب بیزاری بڑھے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں