"KDC" (space) message & send to 7575

عبوری سپیکر کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اختیار ہے یا نہیں؟

آئین کے آرٹیکل 91کے تحت انتخابات کے انعقاد کے بعد 21روز کے اندر اندر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا ضروری ہے۔ ملک میں چونکہ آٹھ فروری کو عام انتخابات ہو چکے ہیں لہٰذا 29فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا آئینی تقاضا ہے۔ اگر بین السطور میں دیکھا جائے تو انتخابات کا انعقاد تو آٹھ فروری کو ہوا لیکن الیکشن کے حتمی نتائج 12فروری کو جاری ہوئے تھے‘ یوں یہ 21روز تو دو یا تین مارچ کو مکمل ہوں گے۔ آئینی ماہرین کو اس باریک نقطہ پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا اس 21روزہ دورانیے کا آغاز الیکشن کے انعقاد والے دن سے ہوگا یا الیکشن کے حتمی نتائج کے اجرا سے۔ ویسے تو الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 223کے تحت 14روز کے اندر حتمی نتائج جاری کرنے کا مجاز ہے‘ لیکن آئین کے آرٹیکل 224کے مطابق خواتین اور اقلیتی سیٹوں کا معاملہ ابھی حل طلب ہے‘ لہٰذا 21روز کی آئینی شرط کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کا اجلاس 29فروری کو نہ ہونے سے آئین کی خلاف ورزی تصور نہیں ہو گی کیونکہ آئین کا آرٹیکل 254ایسے حالات میں ایک مکمل اور محفوظ راستہ دکھاتا ہے۔
14جنوری 2023ء کو جب پنجاب اور 18جنوری کو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کی گئی تھی تو آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق دونوں صوبوں میں 90روز میں انتخابات کا انعقاد لازمی تھا لیکن دونوں صوبوں میں آئین کے مطابق طے شدہ مدت میں انتخابات منعقد نہ ہو سکے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور صدرِ مملکت پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 14مئی 2023ء کی تاریخ دے چکے تھے لیکن ملکی سیاسی حالات کی وجہ سے 14مئی کو یہ الیکشن منعقد نہ ہو سکا۔ اسی طرح جب 12اگست 2023ء کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی تو صدرِ مملکت کی بارہا کوششوں کے باوجود 90روز میں انتخابات کا انعقاد نہ ہو سکا۔ گوکہ اس تاخیر کی وجہ نئی مردم شماری کے گزٹ نوٹیفیکیشن کے بعد نئی حلقہ بندیوں کو قرار دیا گیا۔ بہرحال قومی اسمبلی کے انتخابات بھی 90روز کی آئینی مدت میں منعقد نہ ہو سکے۔ اس تناظر میں اگر اب بھی آئین میں طے شدہ 21 روزہ دورانیے میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد نہیں ہو پاتا تو یہ آئین کی خلاف ورزی تصور نہیں کی جانی چاہیے۔
بادی النظر میں دیکھا جائے تو اس وقت صرف مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیراعظم کے لیے نامزد امیدوار شہباز شریف آئین میں طے شدہ مدت کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں‘ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی چونکہ حکومت کا حصہ بننے سے انکاری ہے‘ لہٰذا اس کی اس معاملے میں کوئی خاص دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ موجودہ صورتحال میں اگر صدرِ مملکت پارلیمانی امور کی وزارت کی جانب سے بھیجی جانے والی سمری پر دستخط نہیں کرتے ‘ جیسا کہ اطلاعات ہیں کہ انہوں نے نہیں کیے‘ تو سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف بھی اجلاس بلانے کے مجاز نہیں۔ وہ عبوری سپیکر ہیں۔ اُن کے پاس آئینی اختیارات نہیں ہیں‘ وہ محض علامتی طور پر اس عہدے پر موجود ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 91کے تحت صدرِ مملکت قومی اسمبلی کے اجلاس کی سمری کو واپس بھیجنے کے بھی اختیارات نہیں رکھتے۔ جہاں تک سیکرٹری قومی اسمبلی کے قومی اسمبلی کے اجلاس بلانے کے اختیارات کا معاملہ ہے تو سیکرٹری قومی اسمبلی ایسا کوئی اختیار نہیں رکھتے اور اگر وہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلاتے ہیں تو یہ اسمبلی اپنی پانچ سالہ مدت کے دوران غیرقانونی اجلاس بلانے پر تنقید کی زد میں رہے گی۔ لیکن بادی النظر میں دکھائی دے رہا ہے کہ صدرِ مملکت آئین کے آرٹیکل 48کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلہ کی روشنی میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی منظوری دے دیں گے اور کوئی قانونی بحران پیدا نہیں کریں گے۔
عام انتخابات کے بعد ملک اب ایک نئے پارلیمانی دور میں داخل ہو چکا ہے۔ پنجاب اور سندھ اسمبلی میں نومنتخب اراکینِ اسمبلی حلف اٹھا کر اپنے سیاسی سفر کا پہلا مرحلہ مکمل کر چکے ہیں۔ دونوں صوبوں میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی ہو چکا ہے۔ پنجاب میں مریم نواز ملک کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھا چکی ہیں جبکہ سندھ میں سید مراد علی شاہ تیسری مرتبہ وزارتِ عُلیہ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بھی 29فروری کو منعقد ہو ہی جائے گا۔ جہاں تک حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور بے ضابطگیوں کا تعلق ہے تو اس کا فیصلہ اب الیکشن ٹربیونلز کریں گے۔
وفاق میں جن چھ جماعتوں کے اتحاد سے حکومت بن رہی ہے‘ انہیں باہمی مشاورت اور اتفاق کے ساتھ چلنا ہو گا اور کسی بھی صورت میں اپنی پوزیشن کا ناجائز استعمال کرنے سے مکمل اجتناب کرنا ہوگا۔ اگر اتحادی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے حصول میں مگن رہیں تو سیاسی جماعتوں کے مفادات کے ٹکراؤ سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہو سکے گا اور پارلیمانی نظام بھی کمزور ہوگا۔ ایم کیو ایم نے حکومت کی حمایت کے لیے جو شرائط رکھی ہیں انہیں پورا کرنا آنے والی حکومت کے لیے کوئی آسان مرحلہ نہیں ہوگا اور ایم کیو ایم اپنی شرائط کی منظوری کو جواز بنا کر حکومت کے لیے دشواری پیدا کر سکتی ہے۔ ایم کیو ایم نے حکومت کی حمایت کے لیے جو شرائط رکھی ہیں انہیں پورا کرنے کے لیے نئے سرے سے قانون سازی ضروری ہے لیکن ایسی کسی بھی قانون سازی کے لیے حکومت کو پیپلز پارٹی کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملکی معیشت کو مستحکم بنیادیں فراہم کرنا ہے۔ اس تناظر میں عالمی مالیاتی فنڈ سے طے پانے والا معاہدہ اہم کردار ادا کرے گا۔اس معاہدے کے کثیر الجہتی فوائد ملکی معیشت کو استحکام کی جانب گامزن کرنے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر اس معاہدے میں بھی صرف ملکی اشرافیہ کے مفادات کو فوقیت دی گئی تو ملک حالیہ بحران سے بھی زیادہ شدید معاشی بحران کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ملک میں سیاسی و معاشی استحکام سے مشروط ہے‘ اس لیے اتحادی جماعتوں کو ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔
دوسری طرف صدرِ مملکت کے انتخاب کی بات کی جائے تو آئین کے آرٹیکل 44کے تحت الیکشن کے انعقاد کے بعد ایک ماہ کے اندر صدر کا انتخاب لازمی ہے کیونکہ اگر آرٹیکل 41کے تحت صدر کیلئے متعین کردہ پانچ سالہ میعاد کے دوران اسمبلیاں تحلیل ہو جاتی ہیں تو صدرِ مملکت آئین کے آرٹیکل 44کے تحت اس وقت تک صدر رہیں گے جب تک نئے صدر کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔ اسی طرح سینیٹ کا الیکشن بھی آئین میں طے شدہ مدت کے دوران منعقد ہونا بہت ضروری ہے۔ موجودہ سینیٹ اراکین کی مدت 11مارچ رات بارہ بجے تک ہے اور اگر 11مارچ سے پیشتر سینیٹ کے 52اراکین کا انتخاب نہیں ہوتا تو سینیٹ غیرفعال ہو جائے گی۔ اس تناظر میں 11مارچ تک سینیٹ کے الیکشن کیلئے نو مارچ تک صدر کا انتخاب بہت ضروری ہے۔
اُدھر الیکشن کمیشن نے تاحال حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن اپنی آفیشل ویب سائٹ پر جاری نہیں کیا جس کی وجہ سے سفارتی حلقوں میں سرگوشیوں کا بازار گرم ہے۔ کئی ممالک کے سفارتی اہل کار اس حوالے سے مجھ سے استفسار کر چکے ہیں۔ میں نے ان کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ ابھی تک خواتین کی مخصوص نشستوں کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے‘ لہٰذا قومی اسمبلی کے اراکین کی حتمی نشستوں کا نوٹیفیکیشن مؤخر کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کے نتائج کی پُراسراریت نے ماحول کو کشیدہ کر رکھا ہے۔موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن کو آگے بڑھ کر اپنی ذمے داریاں پوری کرنی چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں