"KDC" (space) message & send to 7575

نگران وزیراعظم کی سمری پر صدرِ مملکت کے تحفظات

گزشتہ روز 16ویں قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب عمل میں آ چکا جبکہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی طرف سے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے جاری شیڈول کے مطابق وزیراعظم کا انتخاب اتوار‘ تین مارچ کو ہو گا۔ وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی دو مارچ کو دن دو بجے تک وصول کیے جائیں گے اور پھر کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال تین بجے تک ہوگی۔ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران تجویز اور تائید کنندگان کا موجود ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ شہباز شریف مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طرف سے وزیراعظم کے مشترکہ امیدوار ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل نے عمر ایوب خان کو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ وزیراعظم بننے کے لیے 169ووٹ درکار ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کو 200سے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہے‘ اس لیے اس انتخاب کا نتیجہ پہلے ہی سب کے سامنے ہے۔ گوکہ نئی قومی اسمبلی کا اجلاس صدرِ مملکت کی اجازت کے بعد عمل میں آیا ہے لیکن صدرِ مملکت نے اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے آئین کے آرٹیکل (1)48 کے تحت بھجوائی جانے والی نگران وزیراعظم کی نظرثانی شدہ سمری کے لہجے اور لگائے گئے الزامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نگران وزیراعظم کا لب و لہجہ قابلِ افسوس ہے۔
ایوانِ صدر کی طرف سے جاری اعلامیے کے مطابق صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ صدرِ مملکت کو عام طور پر سمریوں میں ایسے مخاطب نہیں کیا جاتا‘ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ نگران وزیراعظم نے صدرِ مملکت کو پہلے صیغے میں مخاطب کیا۔آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت صدر ریاست کا سربراہ اور جمہوریہ کے اتحاد کی علامت ہے‘ بحیثیت صدرِ مملکت نگران وزیراعظم کے جواب پر تحفظات ہیں‘انہوں نے سمری میں ناقابلِ قبول زبان استعمال کی اور بے بنیاد الزامات لگائے۔ صدر انتخابی عمل میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور حکومت قائم کرنے کے عمل سے غافل نہیں ہو سکتا۔صدر کی جانب سے نگران وزیراعظم کی قومی اسمبلی کے اجلاس سے متعلق سمری آئین کے آرٹیکل (1)48 کے عین مطابق واپس کی گئی۔ صدرِ مملکت کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرا مقصد آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی کی تکمیل تھا مگر میرے عمل کو جانبدار عمل کے طور پر لیا گیا۔ نگران وزیراعظم کی ذمہ داری محض آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت اور مقررہ مدت کے اندر پُرامن‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔
صدرِ مملکت صدر کے پروٹوکول کو نظر انداز کرنے پر نگران وزیراعظم کے خلاف رٹ پٹیشن میں ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کر سکتے ہیں۔ چونکہ نگران وزیراعظم تین مارچ کو فارغ ہو رہے ہیں لہٰذا ان کے خلاف یہ مقدمہ عام عدالت میں بھی دائر ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ بھی حفظِ ماتقدم کے تحت انوار الحق کاکڑ کو طلب کر سکتی ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو آئین کے آرٹیکل 224 اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 130 کے تحت تفویض کردہ آئینی اختیارات تک محدود رہنا چاہیے تھا۔ نگران حکومت کے عہدوں پر بیٹھے افراد کے سیاسی بیانات سے سیاسی جماعتوں کو نگران سیٹ اَپ کی غیر جانبداری اور کنڈکٹ پر حرف اٹھانے کا موقع ملا۔صدرِ مملکت کے خیالات سے اختلاف کی گنجائش ہے کہ صدرِمملکت کو 26فروری کو بھیجی جانے والی سمری منظور کرتے ہوئے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کر دینا چاہیے تھا۔ اس طرح صدرِ مملکت کی رائے بھی ریکارڈ کا حصہ بن جاتی اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد پر تنازع بھی کھڑا نہ ہوتا۔ اسی طرح صدرِ مملکت نے جب گزشتہ برس ستمبر میں الیکشن کمیشن کے اراکین کو ایوانِ صدر میں مدعو کرکے الیکشن کی تاریخ دینے کا اعلان کیا تھا تو چیف الیکشن کمشنر نے صدرِ مملکت سے ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ اگر قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو 9ستمبر کو صدرِ مملکت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد سبکدوش ہو جاتے لیکن آئین کے آرٹیکل (B)44 کے مطابق اگر اسمبلیوں کی تحلیل کے دوران صدرِ مملکت سبکدوش ہو رہے ہوں تو وہ اس وقت تک صدرِ مملکت رہیں گے جب تک اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد 30روز کے اندر صدرِ مملکت کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔
قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں نو منتخب اراکین کی تقریبِ حلف برداری کے موقع پر کیے گئے احتجاج کی بات کریں تو ان کا سلسلہ آئندہ بھی برقرار رہے گا۔ قومی اسمبلی میں اتحادی حکومت دبائو میں رہے گی۔ ویسے تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی حکومت میں شراکت دار ہوں گی لیکن اپوزیشن کی تنقید کا نشانہ مسلم لیگ (ن) بالخصوص قائدِ حزبِ اقتدار‘ شہبازشریف بنیں گے۔اس دوران آصف علی زرداری بطور صدرِ مملکت اپنے عہدے کے پروٹوکول سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے جبکہ بلاول بھٹو زرداری حکومتی مراعات سے مستفید ہوں گے اور عوامی تنقید سے محفوظ رہیں گے۔ اس اتحادی حکومت کا سارا خسارہ مسلم لیگ (ن) کو اٹھانا پڑے گا۔جہاں تک بعض اداروں اور عہدیداران کے درمیان اختیارات کے حوالے سے اختلافات کا تعلق ہے‘ اسے کسی کی بدنیتی پر محمول کرنا مناسب نہیں۔ بعض قوانین کے الفاظ اور مفاہیم تشریح کے محتاج ہوتے ہیں اور تشریح کی یہ ضرورت کسی بھی وقت پیدا ہو سکتی ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے لیے ایک مدت کا تعین آئین میں کر دیا گیا ہے اور اس کی ماضی میں پاسداری بھی کی جاتی رہی ہے مگر اس بار اس حوالے سے ایک سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن متنازع ہونے اور اس کو انتخابی نشان نہ ملنے کے باعث کشیدگی پیدا ہوئی۔ وہ بار بار‘ کسی نہ کسی انداز میں قانونی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے؛ تاہم صدرِ مملکت نے آخری لمحے میں اسمبلی اجلاس کی منظوری دے کر آئینی بحران پیدا نہیں ہونے دیا۔
قومی اسمبلی میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد معمولات کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ ملکی حالات اور قومی مفادات کے پیشِ نظر حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اور اپوزیشن رہنمائوں کو تمام قومی اور بین الاقوامی امور پر اعتماد میں لینا چاہیے۔ ضرورت پڑنے پر ایوان کے باہر بھی باہمی ملاقاتوں کو مسائل کے حل کی راہ نکالنے کے لیے بروئے کار لانا چاہیے۔ جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں‘ ان کو عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ موجودہ اسمبلی کے بارے میں عوام میں یہی تاثر پایاجاتا ہے کہ یہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔ اگر صدرِ مملکت نے محسوس کیا کہ ایوانِ زیریں کے معاملات قومی مفادات سے ٹکرائو کی طرف جا رہے ہیں تو وہ وزیراعظم سے آئین کے آرٹیکل 91(7) کے تحت اعتماد کا ووٹ لینے کا فرمان جاری کر سکتے ہیں۔
اگر بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے آئی ایم ایف کو لکھے جانے والے خط کی بات کی جائے تو اسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے‘ اس کے گہرے معاشی اثرات پڑیں گے۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف کو مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی دعوت دے کر ملک کے انتخابی نتائج کو مشکوک بنا دیا ہے جس کے بین الاقوامی معاہدوں پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں