"KDC" (space) message & send to 7575

نئے دور کا آغاز

چاروں صوبوں اور وفاق میں حکومتوں کی تشکیل سے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ اب صدارتی انتخاب کا مرحلہ باقی ہے جو کہ نو مارچ کو طے پا جائے گا۔ آصف علی زرداری اور محمود خان اچکزئی صدر کے انتخاب کے لیے آمنے سامنے ہیں۔ صدرِ مملکت چونکہ وفاقِ پاکستان کی علامت ہوتا ہے اس لیے ملکِ عزیز میں صدر کا انتخاب وزیر اعظم یا کسی اور آئینی عہدے کے انتخاب سے زیادہ وسعت کا حامل ہے۔تمام صوبائی اسمبلیاں صدارتی انتخاب میں مساوی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔رواں ماہ تمام ایوانوں کے 1100سے زائد اراکین صدر کے انتخاب میں حصہ لیں گے‘ تاہم تمام منتخب اراکین کے ووٹوں کا وزن برابر نہیں ہوگا۔آئین کے دوسرے شیڈول میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ کے وزن کا فارمولا درج ہے جس کے تحت تمام صوبائی اسمبلیوں کے ووٹوں کو سب سے چھوٹی صوبائی اسمبلی (بلوچستان) کی مجموعی طاقت سے تقسیم کردیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے تمام 371 ووٹوں کو بلوچستان اسمبلی کے 65 ووٹوں سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی کے 5.71 ووٹ صدارتی انتخاب میں ایک ووٹ کا درجہ رکھتے ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ایک ووٹ ایک ہی گنا جاتا ہے۔اس فارمولے کے تحت سینیٹ کے 100 اورقومی اسمبلی کے 336 اراکین کا صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ شمار ہو گا۔ بلوچستان کے 65اراکین کا صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ شمار ہو گا۔ 371کے ایوان میں پنجاب اسمبلی کے 5.7اراکین کا ایک صدارتی ووٹ تصور ہوگا۔ 168کے ایوان میں سندھ اسمبلی کے 2.6اراکین کاایک ووٹ تصور ہوگا۔ 145 کے ایوان میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے 2.2اراکین کااایک ووٹ تصور ہوگا۔ صدارتی انتخاب خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہوگا۔لہٰذا صدارتی انتخاب میں آصف علی زرداری کے محمود خان اچکزئی کے ساتھ سخت مقابلے کی توقع ہے۔
بظاہر آصف علی زرداری کی پوزیشن مضبوط ہے لیکن اس کے باوجود سنی اتحاد کونسل نے محمود خان اچکزئی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اکتوبر2011ء سے دیگر سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے حوالے سے جو بیانیہ اپنا رکھا ہے‘ اُس بیانیے نے سب سیاستدانوں کو بانی چیئرمین پی ٹی آئی کا حریف بنا دیا۔ لیکن آج انہوں نے ایک ایسے ہی سیاستدان کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے جسے وہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران اور بعد میں تضحیک کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ گوکہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کرکے اپنے حریفوں کو اپنا حلیف بنانے کے لیے ایک اچھی چال چلی ہیں ‘ اگر انہوں نے ایسا ہی سوچ لیا ہے تو پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت میں کیا حرج تھا۔ اگر وہ حکومت سازی میں آصف علی زرداری سے مفاہمت کرتے ہوئے عمر ایوب کو وزیراعظم کے لیے نامزد کر دیتے تو اس اتحاد سے بلاول بھٹو زرداری کا شریف خاندان کے حوالے سے اختیار کیا گیا سیاسی بیانیہ بھی سچ ثابت ہوجاتا‘ کیونکہ وہ اپنی انتخابی تقاریر میں شریف خاندان سے حکومتی اتحاد کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ بہرحال وزارتِ عظمیٰ (ن) لیگ کے پاس جانے کے باوجود آصف علی زرداری کی کامیاب منصوبہ بندی سے پیپلز پارٹی سندھ اور بلوچستان میں حکومت بنا چکی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ حاصل کرنے کے باوجود سب سے زیادہ سیاسی نقصان پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ہوا ہے۔ شہباز شریف اپنی وزارتِ عظمیٰ بچانے کے لیے آصف علی زرداری کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے۔
چاروں صوبوں اور وفاق میں حکومت کی تشکیل سے بادی النظر میں یہی دکھائی دے رہا ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ایوان میں مفاہمتی رویہ اختیار کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن عوام کو متحرک رکھنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اسمبلیوں اور اپنی پریس گفتگو میں شعلہ بیانی ہوتی رہے گی۔ مگر اس کے باوجود پارلیمنٹ میں معمول کی کارروائی جاری رہے گی۔خیبرپختونخوا میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی حکومت کو تحمل مزاجی سے کام لینا چاہیے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور جارح مزاج ہیں لیکن کامیاب حکومت چلانے کے لیے انہیں تحمل مزاجی اختیار کرنی چاہیے۔ وزیراعلیٰ منتخب ہوتے ہی انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں نو مئی کے مقدمات ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آرز درج کرنے والے اپنی اصلاح کر لیں یا سزاکے لیے تیار رہیں۔ اس ضمن میں تمام قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ اگر اسمبلیوں کو مستقل سیاسی اکھاڑا بنائے رکھا گیا اور دانش مندی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو آئین کے آرٹیکل 232کے تحت صوبوں میں گورنر راج نافذ کرنے کا آپشن بھی زیرِ غور آ سکتا ہے۔ مارچ 1973ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرکے نیشنل عوامی پارٹی کو مفلوج کر دیا تھا اور چند مہینوں کے بعد جوڑ توڑ کرکے وہاں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کردی تھی۔ چونکہ ابھی تو نئی صوبائی حکومت کو وجود میں آئے چند روز ہی گزرے ہیں‘ اس لیے حکمرانوں سے مفاہمانہ رویے اختیار کرنے کی امیدیں وابستہ ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کی صورت میں صوبہ بھی بہتر طور پر آگے بڑھے گا۔
گزشتہ پورا دورِ حکومت سیاسی مخاصمت کی نظر ہو چکا ہے ‘اس لیے نئے دورِ حکومت میں حکومت اور اپوزیشن کو مفاہمت کی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسائل میں مبتلا عوام کی مشکلات کا ازالہ ممکن ہو سکے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے پہل کرتے ہوئے اپوزیشن کو میثاقِ معیشت اور میثاقِ مفاہمت کی دعوت دی ہے‘ اپوزیشن کو بھی مفاہمانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ چونکہ اپوزیشن کو الیکشن نتائج کے حوالے سے تحفظات ہیں اور اسی مدعے کو لے کر ایوان کے اندر اور باہر احتجاج دیکھنے میں آ رہا ہے‘ لہٰذا وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے ان تحفظات کو دور کرنے کے لیے الیکشن کمیشن سے فارم 45‘ 46اور 47کی شفافیت کے بارے میں جائزہ رپورٹ حاصل کریں۔ الیکشن کمیشن کی مشاورت سے اس حوالے سے کوئی متفقہ فارمولہ تیار کیا جاسکتا ہے۔نو منتخب وزیر اعظم کو قومی اسمبلی کے تمام اجلاس میں شریک ہونا چاہیے۔ عوام کو وسائل کی بہتر فراہمی کے لیے نئے صوبے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔اس ضمن میں آئین کے آرٹیکل ایک سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔وزیر اعظم کو لوکل گورنمنٹ کے نظام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کاآغاز پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات سے کیا جا نا چاہیے۔اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی معاونت بھی یقینی بنائی جانی چاہیے۔ان اقدامات سے ملک میں انتخابی کشیدگی ختم ہوسکتی ہے اور اپوزیشن لیڈر بھی سنجیدہ رویّہ اختیار کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپی یونین اور آئی ایم ایف آٹھ فروری کے انتخابات کا آڈٹ کرانا چاہیں تو اس کا حل الیکشن ایکٹ 2017ء میں موجود ہے۔ اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان تمام انتخابی عذر داریوں کو فوری طور پر الیکشن ٹربیونلز کو تفویض کر سکتا ہے اور انہیں ایک مقررہ مدت میں فیصلہ کرنے کا پابند بنا سکتا ہے۔ چونکہ الیکشن ٹربیونلز کے ججز کا تعلق ہائی کورٹس سے ہوتا ہے‘ لہٰذا اس ضمن میں متعلقہ چیف جسٹس صاحبان سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ الیکشن ٹربیونلز کو مقررہ مدت میں فیصلہ کرنے کا پابند بنائیں۔ اس اقدام سے غیرملکی دباؤ کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن ٹربیونلزکے فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے سپریم کورٹ موجود ہے‘ وہاں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ اس سے الیکشن نتائج کے حوالے سے جو تنازعات موجود ہیں‘ ان کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں