"KDC" (space) message & send to 7575

صدارتی الیکشن متاثر نہیں ہوگا

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس شکیل احمد پر مبنی دو رکنی بینچ نے چھ مارچ کو سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں کے لیے دائر کردہ درخواست پر سماعت کرتے ہوئے مخصوص نشستوں پر منتخب اراکینِ اسمبلی کوحلف اٹھانے سے روک دیا۔پہلے عدالت نے حکم دیا کہ سپیکر قومی اسمبلی مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے جمعرات سات مارچ تک حلف نہ لیں لیکن سات مارچ کو جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس حکم میں 13 مارچ تک توسیع کر دی۔لاہور ہائی کورٹ نے بھی سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف دائر درخواست سماعت کیلئے مقرر کی ہے۔قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر اعتراض عائد کیا تھاکہ درخواست گزار نے مصدقہ دستاویزات نہیں لگائیں۔ دوسرا اعتراض عدالتی دائرۂ اختیار کا تھا جس کا عدالت نے خود جائزہ لینے کا کہا ہے؛ تاہم گزشتہ روز سپیکر قومی اسمبلی نے مخصوص نشستوں والے ارکان سے حلف لے لیا اور جب سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی جانب سے اس پر اعتراض کیا گیا تو سپیکر کا مؤقف تھا کہ قومی اسمبلی کو پشاور ہائی کورٹ یا الیکشن کمیشن کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہیں کی گئی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام حلقوں کے فارم 45 جاری کرکے انتخابی نتائج میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کی راہ ہموار کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے 14 روز بعد یعنی 22 فروری تک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے فارم 45 اپنی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کر دینے چاہئیں تھے‘ لیکن ملک بھر کے نوے ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنوں کے فارم 45 کو ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کرنا ایک وقت طلب کام تھا کیونکہ یہ باریک بینی سے کرنے والا کام ہے۔ چونکہ الیکشن کمیشن یہ کام مقررہ مدت میں نہیں کر سکا ‘ لہٰذا اس تاخیر کے اسباب کے حوالے سے بروقت وضاحت کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس تاخیر کی بنا پر عوام میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ موجودہ انتخابی نظام میں انتخابی نتائج کے حوالے سے فارم 45 کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ فارم 45 وہ بنیادی دستاویز ہے جس پر ہر پولنگ سٹیشن میں امیدواروں کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد لکھی ہوتی ہے۔ ووٹوں کی گنتی اور اس گنتی کا فارم 45 پر اندراج کا عمل تمام امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں انجام دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد فارم 45 پر انتخابی عملے کے ذمہ داروں کے علاوہ تمام پولنگ ایجنٹ بھی دستخط کرتے ہیں اور پھر اس کی مصدقہ نقول تمام پولنگ ایجنٹوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ ایک انتخابی حلقے کے تمام پولنگ سٹیشنوں کے فارم 45 جمع کرکے ہر امیدوار کے حاصل کردہ کُل ووٹوں کا پتا چلایا جا سکتا ہے جس سے دھاندلی کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ پھر الیکشن کمیشن اپنے طور پر فارم 45 کے نتائج جمع کرکے فارم47 جاری کرتا ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد یہ شکایات بڑے پیمانے پر سامنے آئیں کہ فارم 45 کے مجموعے سے الیکشن کمیشن نے فارم 47 پر جو نتائج جاری کیے‘ وہ امیدواروں کے پاس موجود فارم 45 کے مجموعے سے مختلف تھے۔ اب الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری کردہ فارم 45 کی بنیاد پر بھی شکایات کنندہ الیکشن ٹربیونلز میں انتخابی نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے۔
یہ تھیوری تو بڑی جاندار اور چشم کشا ہے‘ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری ریٹرننگ افسران کی سطح پر دیکھنے میں آئی۔ ریٹرننگ افسران کی طرف سے جاری کردہ فارم 47 اس ضمن میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ الیکشن کمیشن فی الحال انتخابی بے ضابطگیوں کی غیرجانبدرانہ تحقیقات کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ لہٰذا تمام متنازع نتائج متعلقہ الیکشن ٹربیونلز میں چیلنج کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر پارلیمنٹ سفارش کرے تو سپریم کورٹ اُسی طرز پر ایک ایسا تحقیقاتی کمیشن بنا سکتی ہے جیسے 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کیلئے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں بنایا گیا تھا۔ حالیہ انتخابات کے بعد فارم 45 پر نتائج تبدیلی کا معاملہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی اور انتظامات پر سوالیہ نشان لگا چکا ہے۔ غالب امکان ہے کہ انتظامیہ سے لیے گئے بعض ریٹرننگ افسران نے انفرادی طور پر انتخابی نتائج میں گڑبڑ کرتے ہوئے فارم 47 کو فارم 45 کے مطابق مرتب نہیں کیا۔ وہ امیدوار‘ جنہیں انتخابی نتائج پر اعتراض ہے‘ وہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود فارم 45‘ 46 اور 47 کا موازنہ کرتے ہوئے ایک تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرکے چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال کر سکتے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں کام کرنے والی چند غیرملکی این جی اوز الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ فارم 45‘ 46 اور 47 کا موازنہ کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک کو الیکشن نتائج کے حوالے سے اصل صورتحال پر مبنی تحقیقاتی رپورٹس ارسال کر رہی ہیں۔ لہٰذا الیکشن کمیشن از خود بھی سپریم کورٹ آف پاکستان سے انتخابی نتائج کے حوالے سے موجود بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے کی استدعا کر سکتا ہے۔
بادی النظر میں اپوزیشن نے حکومت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ عمر ایوب قائدِ حزبِ اختلاف ہوں گے۔ انہیں وفاقی وزیر کے برابر مراعات حاصل ہوں گی۔ ممکن ہے کہ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہو جائیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کو بھی وفاقی وزیر کے مساوی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ سنی اتحادکونسل کے وہ اراکین جو مختلف پارلیمانی کمیٹیوں کے چیئرمین منتخب ہوں گے‘ انہیں بھی وزیر مملکت کے برابر مراعات حاصل ہوں گی۔ عوام اور ووٹروں کو متحرک رکھنے کے لیے اپوزیشن کا احتجاج اور نعرے بازی جاری رہے گی لیکن اندرونِ خانہ وہ حکومتی مراعات سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔ اس تناظر میں یہ حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرتی نظر آ رہی اورآصف علی زرداری بطور صدرِ مملکت مفاہمانہ پالیسی اپناتے نظر آتے ہیں۔ اپنی مفاہمانہ پالیسی کے پیشِ نظر وہ عمران خان سے بیک ڈور رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔
اُدھر سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی مختصر رائے جاری کر دی۔ سپریم کورٹ کے ججز کی متفقہ رائے میں کہا گیا ہے کہ بھٹو کیس میں لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کی گئی کارروائی آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق آرٹیکل کے4 اور 9 10 (اے) کے مطابق نہیں تھی لیکن آئین وقانون میں ایسا کوئی میکانزم موجود نہیں کہ اس اختیارِ سماعت میں بھٹو فیصلے کوکالعدم قرار دیا جائے۔ 45 سال بعد اعتراف کر لیا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔ اُس وقت کے لاہور ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مشتاق حسین کو بھی اس فیصلے کی مذمت کر دینی چاہیے تھی۔ چیف جسٹس (ر) مشتاق حسین کے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فیصلے میں حکومتی ڈر اور خوف کے علاوہ ذاتی مفادات‘ انا پرستی اور انتقام کا جذبہ بھی شامل تھا۔ اُن کے جذبات سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ جسٹس (ر) مشتاق حسین نے بطور چیف الیکشن کمشنر بھٹو مخالفت میں جو اقدامات کیے‘ وہ بھی عیاں ہیں۔ تب الیکشن کمیشن کی پوری مشینری بھٹو مخالفت میں جسٹس (ر) مشتاق حسین کی بھرپور معاونت کر رہی تھی۔صدارتی ریفرنس میں یہ حقائق بھی سامنے لانے چاہئیں تھے۔ اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس انوار الحق اور لاہور ہائیکورٹ کے جج آفتاب حسن کے فیصلے بھی اس حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل تھے۔حاصلِ کلام یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ایک اندرونی سازش تھی اور اس میں کوئی بیرونی ہاتھ ملوث نہیں تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں