"KDC" (space) message & send to 7575

مفاہمت کی پالیسی چلے گی؟

مخصوص نشستوں کے لیے سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں مسترد ہونے سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکانِ اسمبلی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔الیکشن کمیشن نے ان کی 97 مخصوص نشستیں دیگر پارلیمانی جماعتوں میں تقسیم کر دی ہیں۔پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی وارننگ کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائے‘ یہ اسی کا نتیجہ ہے‘ جبکہ یہ بھی سنا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بھی پارٹی کو قانونی بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جو پارٹیاں الیکشن میں حصہ نہیں لیتیں‘ مخصوص نشستوں پر ان کا حق نہیں بنتا۔پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے سے سنی اتحاد کونسل کی پارلیمانی پوزیشن پر اثر پڑے گا۔ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف تحریک انصاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گی لیکن بظاہر یہی نظر آ تا ہے کہ سپریم کورٹ میں بھی یہ فیصلہ برقرار رکھا جائے گا۔
دوسری جانب وزیراعظم شہبازشریف اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی ملاقات سے یوں لگتا ہے کہ مفاہمت کا آغاز ہو چکا ہے۔ عام انتخابات ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے‘ اب انتخابی سیاست اور بیان بازی سے آگے بڑھ کر ٹھوس کام ہوتا نظر آنا چاہئے۔ انتخابات کے نتیجہ میں وفاق میں مخلوط حکومت معرضِ وجود میں آئی ہے‘ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے‘پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مشترکہ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان کی حکومت بن چکی ہے‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل شروع ہو چکا ہے۔دواپریل کو سینیٹ کی 48نشستوں پر بھی انتخاب ہو رہے ہیں اور 21 اپریل کو ملک بھر میں ضمنی انتخابات ہو ں گے۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انوار الحق کاکڑ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اور انہیں چیئرمین سینیٹ بنانے کی خبریں آئی تھیں مگر پیپلز پارٹی نے اس قیاس آرائی کو مسترد کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے یوسف رضا گیلانی ہی کا نام سامنے آیا ہے۔ اگر یوسف رضا گیلانی اس عہدے کے امیدوار بنتے ہیں تو قوی امکان ہے کہ انتخابات کے بعدبڑی آسانی سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہو جائیں گے۔ سید یوسف رضا گیلانی مارچ 2021ء میں ہی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو جاتے لیکن پریزائیڈنگ آفیسر سید مظفر حسین شاہ نے مہر لگانے کے خانے سے ہٹ کر مہر لگانے پر سات ووٹ مسترد کر دیے جو الیکشن قوانین کی رُو سے تو مسترد تصور نہیں ہوتے لیکن سینیٹ رولز کے تحت مسترد قرار دیے گئے۔پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے گنتی کے موقع پر کہا کہ ووٹروں نے دونوں امیدواروں کے نام پر مہر لگائی‘ لگتا ہے کہ یہ سات ووٹ بدنیتی سے خراب کیے گئے۔اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ پیپلزپارٹی کے ارکان نے کسی مخصوص حکمت عملی کے تحت صادق سنجرانی کو آگے لانا تھا اور پسِ پردہ مفاہمت کے نتیجہ میں یوسف رضا گیلانی کو ہرایا گیا۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور‘ جو پچھلے دنوں وزیر اعظم سے ملاقات کر چکے‘ امکان ہے کہ وہ مستقبل قریب میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کریں گے ۔ممکنہ طور پر ایوانِ صدر کی ملاقات میں عمران خان کے انتخابات کے بارے میں شک و شبہ اور دیگر سیاسی معاملات پر بات آگے بڑھے گی۔اس طرح صدر زرداری دونوں مضبوط دھڑوں پر ہاتھ رکھیں گے اور وزیراعظم شہبازشریف کو دبائو میں رکھیں گے۔ پسِ پردہ اس حکمت عملی پر کام ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا ردعمل عوام میں پیدا ہوا اور عوام نے بھر پور احتجاج شروع کردیا تو صدر آصف علی زرداری بنی گالا کی طرف دیکھیں گے۔
تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے بعض اینکر پرسنز کا بائیکاٹ کرکے اپنے رہنمائوں کے ان کے ٹاک شو میں جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔بادی النظر میں ایسی پابندی سے ان کے حمایتی ووٹرز کو اب یکطرفہ نقطۂ نظر ہی سننے کو ملے گا۔ ان کے شو میں آکر تحریک انصاف دلائل کے ساتھ ان کو قائل کرنے کی پوزیشن میں تھی‘ بائیکاٹ سے یہ دفاع کیونکر ہو گا؟ ویسے اینکر کا کام پروگرام کو آگے لے جانا ہوتا ہے‘ وہ پالیسی کے بارے میں رائے دینے کا مجاز نہیں۔پی ٹی آئی نے جن اینکر حضرات کے پروگراموں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے وہ اپنے شعبہ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور ان کے ناظرین کا وسیع حلقہ ہے‘ ان پروگراموں کا بائیکاٹ کرنے سے تحریک انصاف کو میڈیا میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی‘ لہٰذا پروگراموں میں شرکت نہ کرنا دلائل کی کمزوری سمجھا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے کی ایک اور اہم خبر یہ تھی کہ سندھ حکومت کے اعتراض پر وزیراعظم پاکستان نے چیئرمین ارسا ظفر محمود کی تقرری کے احکامات فوری طور پر واپس لے کر حالات کو کنٹرول کر لیا ہے ۔ویسے سندھ حکومت کو ظفر محمود کے بطور چیئرمین ارسا پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ ظفر محمود ارسا کے معاملات کو بخوبی جانتے ہیں اور چیئرمین واپڈا کی حیثیت سے بھی انہوں نے کالا باغ ڈیم کی حمایت میں خاصا کام کیا ہے ‘ اس پر ان کی کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ ان کا تجربہ وسیع ہے اور وہ آل رائونڈر‘ بیورو کریٹ رہے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں سب سے اہم مسئلے کی‘ جس پر اس وقت سب کی نظر ہے ‘ یعنی آئی ایم ایف کی۔آئی ایم ایف کا وفد ان دنوں تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کا حتمی جائزہ لے رہا ہے۔ 14مارچ سے جاری مذاکرات کے اختتام پر اگر بیل آؤٹ پیکیج سے متعلق تمام شرائط پوری ہونے کا تعین ہو گیا تو اقتصادی جائزہ اپنے تکمیلی مراحل میں پہنچ جائیگا اور پاکستان آٹھ ارب ڈالر تک کا ایک نیا بیل آؤٹ پیکیج مانگے گا۔وزارتِ خزانہ کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے ان مذاکرات کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔یہ کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات تعمیری اور مثبت انداز سے جاری ہیں اور محکمہ کو عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ آخری جائزہ مذاکرات کے مثبت نتائج موصول ہونے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف کو چیئرمین پی ٹی آئی نے جو خط لکھا تھا اس پر مالیاتی ادارے کی جانب سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا البتہ اس سے حکومت کی کمزوریاں ضرور آشکار ہوچکی ہیں۔ کئی این جی اوز اور تحقیقی اداروں نے بھی 8 فروری کے انتخابات کے بارے جو رپورٹیں جاری کی ہیں ان سے بھی حکومت بند گلی میں کھڑی نظر آ تی ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے انتخابی نتائج پر جو تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹ شائع کی گئی تھی اس پر اخبارات نے میں تبصرے کئے گئے اوریورپی یونین اور اقوام متحدہ میں بھی یہ زیر غور آئی‘ امریکی کانگرس میں بھی اس حوالے سے رپورٹیں گردش کر رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے کم آمدنی والے گھرانوں کو رمضان المبارک میں30 ارب روپے کا مجموعی ریلیف پیکیج دیا گیا ہے ‘ حکومت کو چاہیے کہ کاٹیج انڈسٹری کا جال بھی بچھائے‘ جس طرح بنگلہ دیش کی حکومت نے کاٹیج انڈسٹریز کا جال بچھا کر بنگلہ دیش کی50 لاکھ سے زائد خواتین کو ہوم انڈسٹریز کے ذریعے روزگار مہیا کردیا اور بنگلہ دیش سے15 ارب ڈالر سے زائد کی ٹیکسٹائل مصنوعات تیار کرکے بھجوائی جاتی ہیں۔پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ لہٰذا وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ کو بنگلہ دیش کی ہوم انڈسٹریز کے پلان پر ضرور غور کرنا چاہئے تاکہ پاکستان کو معاشی طور پر آگے لے جایا جا سکے۔ہنگامہ آرائی اور الزام تراشی اب ختم ہونی چاہئے۔متنازع معاملات عدالتوں میں لے کر جائیں اور احتجاجی تحریک کا سلسلہ بند کر یں۔اندرونی طور پر جو خبریں گردش کر رہی ہیں کہ عظیم تر مفاہمت پر پیش قدمی ہو رہی ہے‘ خدا کرے یہ خبریں سچی ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں