"KDC" (space) message & send to 7575

سنی اتحاد کونسل تحریک انصاف میں ضم نہیں ہو سکتی

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق دو اپریل کو سینیٹ کی 48نشستوں پر ہونے والے الیکشن کے لیے جمع کرائے گئے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہو چکی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کاغذاتِ نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں 25 مارچ تک نمٹائی جائیں گی جبکہ امیدواروں کی حتمی فہرست 27 مارچ کو جاری کی جائے گی۔ اس بار سینیٹ الیکشن میں پنجاب سے دو اہم شخصیات حصہ لے رہی ہیں۔ ایک پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور دوسرے موجودہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی موجودہ نشستوں کے تناسب اور سینیٹ الیکشن کے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ان کو کامیابی کے لیے کم از کم 50اراکینِ اسمبلی کی حمایت درکار ہو گی۔
اس وقت سنی اتحاد کونسل کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کے حوالے سے مشاورت ہو رہی ہے جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 205 اور 215 کی رو سے ناممکن ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکینِ اسمبلی آئین کے آرٹیکل 51‘ 206 اور 224 کے مطابق سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اب سنی اتحاد کونسل کے پارلیمنٹیرین بن چکے ہیں۔ قانون کے مطابق ایوان میں موجود رہتے اب وہ کسی دوسری جماعت میں شمولیت کا اختیار نہیں رکھتے۔ اسی طرح کا منظر نامہ نومبر 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔ صدر آصف علی زرداری کی خواہش تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کو پاکستان پیپلز پارٹی میں ضم کر دیا جائے تاکہ مخدوم امین فہیم‘ جو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر تھے‘ ان کا سیاسی اثر و رسوخ ختم کیا جا سکے۔ اس حوالے سے مشاورت کے لیے صدر آصف علی زرداری نے مجھے ایوانِ صدر میں خصوصی طور پر مدعو کیا۔ اُن دنوں فاروق ایچ نائیک وفاقی وزیر قانون و انصاف تھے‘ ان کی موجودگی میں صدر زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کو پاکستان پیپلز پارٹی میں مدغم کرنے کے حوالے سے مجھ سے قانونی رائے لی‘ میں نے انہیں بتایا کہ ابھی تک پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہیں اس لیے اسے سیاسی جماعت کہلوانے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے۔ صدر آصف زرداری اور فاروق ایچ نائیک نے اس کا مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن کروانے کے لیے تمام قانونی کارروائی پوری کر لیتے ہیں۔ جس پر میں نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل تین‘ چار اور پانچ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین پاکستان پیپلز پارٹی میں مدغم نہیں ہو سکتی کیونکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے انتخابی نشان تیر کے تحت الیکشن لڑا ہے اور ان کے کامیاب اراکینِ اسمبلی اسی جماعت کا حصہ رہیں گے۔ اگر ان کو پاکستان پیپلز پارٹی میں مدغم کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے اراکینِ اسمبلی اپنی رکنیت سے محروم ہو جائیں گے۔ صدر آصف علی زرداری نے اور فاروق ایچ نائیک نے میری رائے سے اتفاق کیا اور پارٹی انضمام کا ارادہ ترک کر دیا۔
اگر موجودہ حالات کے تناظر میں سیاسی اُتار چڑھاؤ کا جائزہ لیا جائے تو یہ معیشت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ ایوانوں میں ہونے والی بحث و تکرار تو رہی ایک طرف‘ اس موقع پر جبکہ معیشت کی بحالی کے حوالے سے خوش آئندہ خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہو چکے ہیں تو امریکہ میں ایک سیاسی جماعت کے حامیوں کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے دفاتر کے باہر احتجاجی مظاہرے میں قرض دینے سے پہلے الیکشن تنازعات کو حل کرنے کی شرائط عائد کرنے کے مطالبات پیش کر دیے ہیں۔ ایسے موقع پر جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض کی نئی قسط کے حصول کے لیے مذاکرات آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں‘ عالمی مالیاتی اداروں کے دفاتر کے باہر ایسے مظاہرے ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔ اگر چہ اس سے ان مالیاتی اداروں کی پالیسی پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن ان احتجاجی مظاہروں سے عالمی مالیاتی اداروں پر حکومت کی کمزرویاں آشکار ہوں گی‘ نتیجتاً حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات کرتے ہوئے کوئی مضبوط مؤقف اپنانے کی پوزیشن میں نہیں رہے گی۔ ان مظاہروں سے جگ ہنسائی کا پہلو بھی نکلتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی مالیاتی ادارے پہلے ہی سخت ترین شرائط پر قرض فراہم کر رہے ہیں‘ ان کے دفاتر کے باہر ہونے والے احتجاجوں سے وہ ممکنہ سیاسی عدم استحکام کو جواز بنا کر مزید سخت شرائط لاگو کر سکتے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا انعقاد بہت ضروری ہے تاکہ تمام سٹیک ہولڈرز اور پارلیمانی جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر مسائل کا حل نکال سکیں۔
آج ہمیں ماضی کے مقابلے میں مثبت طور پر تبدیل شدہ سیاسی و معاشی منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے۔ موجودہ عسکری قیادت پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی کو قومی تعمیر و ترقی کا واحد راستہ تسلیم کرتی ہے جبکہ موجودہ عدالتی قیادت کی جانب سے بھی ماضی میں آئین کے خلاف کیے گئے اقدامات کے حق میں دیے گئے عدالتی فیصلوں کو متروک قرار دیا جا چکا ہے۔ اسی طرح تمام ریاستی اداروں کے اپنی مقررہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سابق اتحادی حکومت کے دور میں معاشی بحران کے خاتمے اور ہمہ جہت ترقی میں پیشرفت کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی تجویز پیش کرکے قومی ترقی کی جدوجہد میں سیاسی قیادت کے ساتھ تعاون کی ایک غیرمعمولی مثال قائم کی۔ اب نئی منتخب سیاسی حکومت کے قیام کے بعد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے منصوبے پر تیز رفتار پیش قدمی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل دوست ممالک کو زراعت‘ معدنیات‘ توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرے گی جس سے ملک میں بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری آئے گی اور روزگار کے مواقع اور برآمدات میں اضافے کی شکل میں اس کے عملی نتائج سے عوام بھی مستفید ہوں گے۔
خبروں کے مطابق حال ہی میں توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی ایک بین الاقوامی کمپنی کی طرف سے پاکستان میں اربوں ڈالر کا سرمایہ کاری منصوبہ پاکستانی حکام کو بھجوایا گیا ہے۔ یہ کمپنی لاہور کے نواحی علاقے میں اس منصوبے کے لیے تین سو سے زائد ایکڑ زمین بھی خرید چکی ہے جہاں الیکٹرک کاریں‘ بسیں‘ موٹر سائیکلیں اور سولر پینلز بنانے کا ایک بڑا پروجیکٹ لگانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کمپنی کا وفد یوکے ٹریڈ مشن کے تحت پاکستان آنے کا خواہش مند ہے اور پاکستان میں اپنے منصوبے کا جلد از جلد آغاز کرنے کا خواہاں ہے۔ 25سے 30ارب ڈالر سرمایہ کاری کے حامل اس منصوبے سے 30ہزار سے زائد افراد کے لیے روزگار پیدا ہو گا۔ اس کمپنی نے موٹروے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے نظام کی تنصیب کا بھی منصوبہ پیش کیا ہے جس سے دو لاکھ میگا واٹ تک بجلی حاصل ہو سکے گی۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں 600 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے۔ان منصوبوں کے بلیو پرنٹس اعلیٰ حکام کو بھجوائے جا چکے ہیں۔
خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور بحرین کی جانب سے بھی پاکستان میں مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے امید افزا پیشرفت ہوتی نظر آرہی ہے؛ تاہم معاشی بہتری کا یہ سلسلہ بلا رکاوٹ جاری رکھنے کے لیے ریاستی اداروں اور حکومت و پارلیمنٹ میں ہم آہنگی ہونے کیساتھ ساتھ پارلیمانی کارروائیوں کا شائستہ‘ بامقصد اور تعمیری ہونا بھی ضروری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں مزاحمت کے بجائے مفاہمت کی طرف بڑھنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں