"KDC" (space) message & send to 7575

گورنر اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی چپقلش

امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ پاکستان کے حالیہ انتخابات اور جمہوری عمل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کمیٹی نے پاکستان کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے تحقیقات کے لیے صفر کے مقابلے میں پچاس ووٹوں سے قرارداد منظور کر لی ہے۔ قرارداد کے مطابق بائیڈن انتظامیہ پاکستان سے مضبوط روابط استوار رکھ کر انسانی حقوق کا احترام‘ جمہوریت اور جمہوری اداروں کا استحکام یقینی بنائے گی۔ مذکورہ قرارداد میں حکومتِ پاکستان سے انسانی حقوق کا معاملہ اٹھانے‘ نئی حکومت سے قانون پر عمل درآمد کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کمیٹی کی سفارشات کو بِل کی صورت میں امریکی ایوانِ نمائندگان کو بھجوایا جائے گا۔ مذکورہ قرارداد بادی النظر میں پاکستان کے انتخابات پر عدم اعتماد کے مترادف ہے کیونکہ یہ قرارداد پاکستان کے اندر جمہوریت اور ایسے شفاف انتخابات کی حمایت ظاہر کرتی ہے جو عوام کی مرضی و منشا کے عکاس ہوں۔ یہ قرارداد جب پیش ہو رہی تھی تو امریکہ میں حکومتِ پاکستان کی لابسٹ شیلا جیکسن‘ جو کانگرس کی اہم ترین رکن ہیں اور خارجہ امور کمیٹی میں گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہیں‘ نے اس قرارداد کی سنگینی کے بارے میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی وساطت سے حکومتِ پاکستان کو مطلع نہیں کیا۔ یہ قرارداد ایسے وقت میں منظور کی گئی جب اسی کمیٹی کے سامنے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ امور برائے وسطی و جنوبی ایشیا ڈونلڈ لُو کو پیش ہوئے ابھی چند روز ہی گزرے ہیں۔ ڈونلد لُو سے پاکستان بالخصوص حالیہ انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور عمران خان کے سائفر بیانیے کے حوالے سے سوالات کیے گئے تھے۔
دوسری جانب پاکستان نے اپنی خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے آٹھ فروری کے انتخابات پر امریکی تشویش اور مداخلت کو مسترد کر دیا ہے۔ 21 مارچ کو ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے لیکن امریکی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستانی انتخابی قوانین کے حوالے سے متعدد غلط فہمیاں دکھائی دیں۔ اس سوال پر کہ کیا امریکی سفیر بانی پی ٹی آئی سے ملیں گے‘ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس پر قانون کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ دفترِ خارجہ کا مؤقف درست ہے کہ انتخابات سے متعلق شکایات دور کرنے کے لیے ملک میں قوانین اور میکانزم موجود ہے اور ملک میں جمہوریت مکمل طور پر فعال ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دفترِ خارجہ کی بریفنگ میں جلد بازی سے کام لیا گیا۔ بہتر ہوتا کہ دفترِ خارجہ اپنی بریفنگ میں الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد الیکشن ایکٹ کی اُن دفعات کا حوالہ بھی دیتا جن میں الیکشن عذرداریوں کے لیے (الیکشن ایکٹ کی دفعات 139 اور 140 کے تحت) الیکشن ٹریبونلز موجود ہیں اور الیکشن ٹربیونلز کے ججز کا تقرر متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی منظوری سے کیا جاتا ہے۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 155 کے تحت الیکشن ٹریبونل الیکشن میں بے قاعدگیوں کی صورت میں الیکشن کو کالعدم قرار دینے کا بھی مجاز ہے۔
اگر امریکی امورِ خارجہ کمیٹی کو منطقی انداز میں جواب دیا جاتا تو اس کے کچھ نتائج بھی آتے اور امریکی وزارتِ خارجہ کی کمیٹی مطمئن ہو جاتی۔ اب ضروری ہے کہ اس حوالے سے جب امریکہ سے بات کی جائے تو الیکشن قوانین کی دفعات 139 سے 166 تک کے حوالہ جات دیے جائیں اور ان دفعات کی مکمل سمری بھی ساتھ منسلک کی جائے۔ وزارتِ خارجہ نے امریکی سفیر کی بانی تحریک انصاف سے ملاقات کا فیصلہ بھی قانون سے مشروط قرار دیا جو اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بین السطور میں امریکی مؤقف اور مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے وزارتِ خارجہ کو دو ٹوک اندازمیں کہنا چاہئے تھا کہ بانی تحریک انصاف کے پاس امریکی شہریت نہیں جبکہ سفارتی آداب کے تحت امریکی شہریت رکھنے والے کسی ملزم؍ مجرم کی ملاقات ہی امریکی سفارتی اہلکار سے کرائی جا سکتی ہے۔
ڈونلڈ لُو نے کانگریس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ میں پاکستان کی سیاسی صورتحال سے متعلق کئی سوالات کے جواب دیے۔ سائفر کیس میں امریکی سازش سے متعلق سابق وزیراعظم عمران خان کے الزامات کو تو اگرچہ امریکیوں نے بے بنیاد قرار دیا ہے تاہم انتخابی دھاندلیوں‘ پولنگ سے پہلے اور پولنگ کے دوران دہشت گردی‘ تشدد‘ انٹرنیٹ سروس کی معطلی‘ صحافیوں سے بدسلوکی اور انتخابی عمل میں مداخلت جیسے معاملات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی جامع تحقیقات پر زور دیا تھا۔مگر ہمیں امریکی وزارتِ خارجہ کے معاون کا یہ بیان حقائق پر مبنی دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ڈونلڈ لُو کو خود عمران خان نے ہی 27 مارچ 2022ء کو متنازع بنا دیا تھا جب انہوں نے سائفر کو عوامی جلسے میں لہرایا اور 3 اپریل 2022ء کو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی وساطت سے آئین کے آرٹیکل 5 کی آڑ میں عدم اعتماد کی تحریک کو اسی سائفر کی بنیاد پر مسترد قرار دیا تھا۔ بعد ازاں عمران خان نے بطور وزیراعظم آئین کے آرٹیکل 58(2) کے تحت قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا؛ تاہم سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کے احکام کو غیر قانونی قرار دیا اور قومی اسمبلی کو بحال کر دیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر 9 اپریل کو عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہوئی جو کامیاب ہو گئی اور عمران خان اقتدار سے محروم ہو گئے۔ بعد ازاں اپنی احتجاجی تحریک میں بانی تحریک انصاف نے ڈونلڈ لُو ہی کو نشانہ بنایا۔ لہٰذا امریکی کانگرس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کو ڈونلڈ لُو کو پاکستان کے انتخابات اور اندرونی معاملات کے حوالے سے فریق بننے سے گریز کرنا چاہئے تھا۔
الیکشن کمیشن ابھی تک انتخابی بحران کے گرداب سے نہیں نکل سکا۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتی نشستوں پر نامزد اراکین کی حلف برداری کا معاملہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ سپیکر نے گورنر خیبر پختونخوا کے احکامات کے باوجود وزارتِ قانون کی رائے تک اسمبلی اجلاس طلب کرنے سے معذرت کر لی ہے جس کے باعث اپوزیشن جماعتوں کی مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین اور اقلیتی ارکان اسمبلی رکنیت کا حلف نہیں اٹھا سکے۔ سپیکر کے پی اسمبلی کو آئین کے آرٹیکل109 کے تحت گورنر کے طلب کردہ اجلاس کی پاسداری کرنا چاہئے تھی۔ گورنر کو اجلاس بلانے کے آئینی اختیارات حاصل ہیں؛ تاہم ان کو وزیراعلیٰ کی ایڈوائس ہی پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ جب وزیراعلیٰ نے اسمبلی اجلاس بلانے کی ایڈوائس نہیں بھجوائی تھی تو گورنر از خود اجلاس بلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اب خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت‘ سپیکر صوبائی اسمبلی اور گورنر آمنے سامنے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صوبے میں گورنر راج لگانے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ اگر ایسی صورتحال درپیش آئی تو خیبر پختونخوا میں سیاسی احتجاج کی شدت میں اضافہ ہوگا اور یہ وفاقی حکومت کے لیے دردِ سر بن جائے گا۔ بہتر ہے کہ صوبے کے مفاد کو دیکھتے ہوئے اسمبلی کا اجلاس بلا کر مخصوص نشستیں حاصل کرنے والی خواتین اور اقلیتی اراکین سے حلف لیا جائے جیسے دیگر صوبوں اور وفاق میں ہو چکا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن بھی 2 اپریل کو ہو رہے ہیں؛لہٰذا جن مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104 کے تحت کر دیا ہے‘ ان کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا کسی طور درست نہیں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں