"KDC" (space) message & send to 7575

جوبائیڈن کا خط‘ جوڈیشل کمیشن اور سینیٹ الیکشن

امریکی صدر جوبائیڈن نے وزیراعظم شہباز شریف کو ایک خط بھیجا ہے جس میں عالمی اور علاقائی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور پاک امریکہ شراکت داری کو دنیا کی سلامتی کیلئے اہم قرار دیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان امریکی حکومت کا اعتماد کھو چکے تھے اور اگست 2018ء میں وزیراعظم بننے کے بعد وائٹ ہاؤس سے مبارکباد کا رسمی فون نہ آنے پر اُن کی مایوسی نے سیاسی تنازع کھڑا کر دیا ۔ صدر بائیڈن کے خط کا اگر سفارتی انداز میں جائزہ لیا جائے تو یہ خط لمحۂ فکریہ بھی ہے اور طمانیت کا باعث بھی۔ صدر جو بائیڈن کا یہ پاکستان سے پہلا سفارتی رابطہ ہے اور پاک امریکہ تعلقات میں ممکنہ تبدیلی کی نشاندہی بھی۔ اس خط میں صحت عامہ‘ اقتصادی ترقی اور تعلیم میں تعاون پر زور دیا گیا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو عسکری اور سویلین زمرے میں 2010ء میں اربوں ڈالر کی امداد دی تھی مگر اس کے بعدطالبان کے ساتھ مبینہ تعلقات اور چین کے ساتھ بڑھتے دفاعی تعلقات کے سبب امداد کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اب بائیڈن انتظامیہ نے خط کے ذریعے واضح کیا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان صرف صحت عامہ‘ اقتصادی ترقی اور تعلیم کے میدان میں تعاون ہو گا۔ پاکستان کی جغرافیائی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مختصر تعلقات کو کسی بھی قیمت پر نہیں توڑا جائے گا۔ یہ تعلقات کی کم ترین سطح کا سفارتی پیغام ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی صورتحال کو دیکھتے ہوئے شاید موجودہ حکومت بھی اپنے تعلقات کے محور کو چین کے گرد رکھنا چاہتی ہے اور یہ بات اب امریکہ سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستانی رائے عامہ 1956ء سے چین کی طرف مائل ہے اور 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں چین کی بے لوث امداد کے سبب پاکستان کے عوام چین کو سچا ہمدرد اور حقیقی دوست خیال کرتے ہیں۔ اقتصادی راہداری کے معاہدات سے پاکستان اور چین بہت قریب ہو چکے ہیں جبکہ امریکہ پاک چائنا تعلقات میں گرم جوشی کو پسند نہیں کرتا۔ سیاسی عدم استحکام اور مخلوط حکومت کی کمزور ترین پوزیشن کے سبب شہباز حکومت امریکہ کو اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔
پاکستان کو سالانہ تقریباً 30 ارب ڈالر سمندر پار پاکستانی امریکہ یا امریکہ نواز ممالک سے ترسیلاتِ زر کی صورت میں بھیجتے ہیں۔ چین یا اس کے دوست ممالک سے اس قسم کی کوئی آمدن نہیں آتی۔ چین کے ساتھ پاکستان کا سالانہ تجارتی خسارہ تقریباً دو ارب ڈالر ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ سالانہ نفع پانچ ارب ڈالر کا ہے۔ اس وقت پاکستان کی معاشی اور خارجہ پالیسی نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ دوست ممالک عسکری قیادت کی طرف دیکھتے ہیں‘ کیونکہ وفاقی کابینہ میں یکجہتی دیکھنے میں نہیں آتی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف سابق عسکری قیادت کے خلاف میڈیا میں آ کر بلاوجہ بیانات دے رہے ہیں۔ اس وقت تحمل اور برداشت کی ضرورت ہے۔ ملک کی عسکری قیادت داخلی اور خارجہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے لیکن کمزور وفاقی حکومت کی وجہ سے بڑی طاقتیں پاکستان کے طویل سرمایہ کاری منصوبوں کا حصہ نہیں بننا چاہتیں۔
ادھراسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کے خط کی روشنی میں جوڈیشل کانفرنس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ اس کے برعکس قانونی ماہرین باور کرا رہے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایڈوائزری فورم نہیں بلکہ یہاں ججوں کے کنڈکٹ کے حوالے سے امور زیرِ غور آتے ہیں‘ جبکہ 2017ء کے ایکٹ کے مطابق وزیراعظم کابینہ سے منظوری لینے کے بعد بااختیار تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا اعلان کرتا ہے اور وفاقی حکومت کو عوامی مفاد میں اہم امور پر تحقیقات کرانے کا وسیع اختیار حاصل ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ اس صورتحال کو طول دینا مناسب نہیں کیونکہ اپوزیشن جماعتیں اداروں میں ٹکراؤ کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس سے معاشرے میں افراتفری پھیلنے کا خدشہ ہے۔
وفاقی حکومت نے ججز کے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن کی سربراہی کے لیے متعدد ناموں پر غور کیا اور جو چند نام سامنے آئے ان کی صلاحیتیں اور غیر جانبداری قابلِ رشک نہیں تھی سوائے ایک سابق چیف جسٹس کے‘ جن کی غیر جانبدارانہ پالیسی ماضی میں قابلِ رشک رہی۔ حکومتی حلقوں میں ایک ایسے سابق چیف جسٹس کے نام پر بھی غور کیا گیا جو ملک کے نگران وزیراعظم بھی رہے لیکن ان کی بطور نگران وزیراعظم کارکردگی مایوس کن تھی۔ کہا جا رہا تھا کہ کمیشن کا سربراہ ایسے غیر جانبدار سابق چیف جسٹس کو مقرر کرنا چاہیے جو عالمی شہرت کا حامل ہو اور جس کو دیگر امور کے علاوہ بین الاقوامی فیصلوں پر بھی دسترس حاصل ہو۔ حکومت نے اس کمیشن کی سربراہی کے لیے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو مقرر کیا ہے۔ میری نظر میں وہ اس کام کے لیے موزوں ترین شخصیت ہیں۔
ادھرپنجاب میں بلامقابلہ سینیٹرز منتخب ہونے سے حکمران اتحاد بڑے امتحان سے گزر گیا ہے کیونکہ پنجاب کے صوبائی ارکانِ اسمبلی سینیٹ کی جنرل نشستوں پر بعض افراد کے بارے میں تحفظات رکھتے تھے۔ یہ بھی مد نظر رہنا چاہئے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو ا ہے کہ جمہوری دور میں ایوانِ بالا غیر فعال ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں پر حلف نہ لینے کی بنا پر وہاں سینیٹ الیکشن کا شیڈول ملتوی کیا تو الیکٹورل کالج مکمل نہ ہونے کی وجہ سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب نہیں ہو سکے گا۔ ایوانِ بالا کو غیر فعال رکھنے کا نقصان یہ بھی ہو گا کہ کوئی قانون سازی نہیں ہو سکے گی۔ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 17‘ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104 اور دفعہ 28 کے تحت سینیٹ کے الیکشن کو مؤخر کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 8 کے تحت بھی اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کا مجاز ہے۔ صوبے میں 22 مخصوص نشستوں کے معاملے پر پشاور ہائیکورٹ نے بھی حلف لینے کا حکم جاری کیا مگر خیبر پختونخوا کی حکومت اپنے فیصلے پر اڑی ہوئی ہے اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیے تیاری کر لی ہے۔ آئین کی دفعہ 109 کے تحت گورنر صوبائی اسمبلی کا اجلاس وزیراعلیٰ کی سفارش ہی پر بلانے کا پابند ہے۔ موجودہ صورتحال میں گورنر نے وزیراعلیٰ کی سفارش کے بغیر ہی صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جس کی وجہ سے سپیکر صوبائی اسمبلی نے اجلاس کو غیر قانونی قرار دیا۔ کل (2 اپریل) کو سینیٹ کے الیکشن ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا کے سینیٹ الیکشن مؤخر کر دیے تو چیئرمین سینیٹ کا انتخاب نہیں ہو سکے گا۔ دیگر تین صوبوں کے سینیٹرز بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں جبکہ اسلام آباد کے لیے سینیٹ کے انتخابات کل ہو جائیں گے۔ اس طرح سینیٹ تو فعال ہو جائے گا لیکن چیئرمین سینیٹ کا انتخاب مؤخر ہو جائے گا۔
اس وقت تحریک انصاف وکلا تحریک کا آغاز کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ اس کا اثر سٹریٹ پاور میں تو نظر آ رہا ہے لیکن بار ایسوسی ایشنز میں اس کا اثر برائے نام ہے‘ لہٰذا تحریک انصاف کا پاور شو صرف سوشل میڈیا اور قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی تک رہے گا۔ البتہ وفاقی حکومت‘ بالخصوص سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو گڈ گورننس پر توجہ دینا ہو گی۔ پنجاب میں عید الفطر کے بعد لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کا بھی معرکہ درپیش ہو گا جس سے پیشتر پنجاب اسمبلی سے قانون سازی کرانا پڑے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں