"KDC" (space) message & send to 7575

ملکی حالات و واقعات‘ تشویش کے سائے

آئینی اور قانونی طور پر ہائوس آف فیڈریشن مکمل ہے اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب سینیٹ ایکٹ اور رولز کے مطابق ہو جائے گا اور نظر آرہا ہے کہ اتحادی حکومت کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو جائیں گے۔ خیبر پختونخوا کے 11 ارکانِ سینیٹ کا انتخاب ہونا ابھی باقی ہے لہٰذا ایوانِ سینیٹ نامکمل ہے اس لیے اپوزیشن روایت کے مطابق ہنگامہ آرائی کرے گی۔ اگرچہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مابین مخصوص نشستوں پر 30 اراکین کی حلف برداری کے ایشو پر آئینی اور قانونی ابہام کی وجہ سے خیبر پختونخوا کی 23 نشستوں میں سے 11 نشستوں پر سینیٹ انتخاب نہیں ہو سکا اور معاملہ پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت ہے لہٰذا اب اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے کوئی فیصلہ آنے کے بعد ہی سینیٹ کی ان 11 نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ جمہوری پارلیمانی نظام میں ایسے دشوار مرحلے آتے رہتے ہیں اور سپریم کورٹ کی تشریح کے بعد امید ہے کہ دھند صاف ہو جائے گی۔
وفاقی وزرا محض میڈیا کی زینت بننے کے لیے ایسی رائے دیتے رہتے ہیں جس سے نظام پر کاری ضرب لگنے کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے۔ سینیٹ الیکشن نہ ہونے اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا معاملہ حل نہ ہونے پر گورنر راج لگانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کی راہ میں متعدد قانونی مسائل کھڑے ہیں۔ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آئین کا آرٹیکل 234 ہے جس کے تحت صوبے میں گورنر راج لگانے کیلئے گورنر کی سفارشات پر وزیراعظم کی ایڈوائس صدرِ مملکت کو بھجوائی جاتی ہے۔ اس وقت ایوانِ صدر میں ایک جہاندیدہ سیاسی شخصیت براجمان ہے جو سیاسی مفاہمت کی علامت ہے۔ لہٰذا قوی امید ہے کہ اگر وزیراعظم پاکستان کی جانب سے کوئی ایسی ایڈوائس بھی بھیجی گئی تو صدر زرداری اس پر عملدرآمد کرنے سے گریز کرتے ہوئے سمری واپس بھجوا دیں گے۔ اگرچہ مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل گروہ اس کے خواہش مند ہیں اس لیے ان سے کسی بھی حماقت کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن اٹھارہویں آئینی ترمیم نے گورنر راج کو عملاً ناممکن بنا دیا ہے لیکن اگر کسی کی منفی سوچ محض صوبائی اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے اور مخصوص نشستوں کے مسئلے پر پورے صوبے کو آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا کرنے کی ہے تو پھر سارا نظام ہی اس کی زد میں آ جائے گا۔ صوبے میں گورنر راج لگانے سے صوبائی اسمبلی معطل ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں نوجوانوں میں بے چینی بڑھے گی‘ خصوصاً ضم شدہ قبائلی اضلاع میں خوفناک اضطرابی لہر کا احتمال ہے اور وفاقی حکومت کی کمزور پوزیشن اس کی روک تھام میں ناکام ہو جائے گی۔ لہٰذا معاملہ عدالتوں کے ذریعے حل ہونے دینے میں ہی دانشمندی ہے۔
اس وقت صوبہ سندھ میں امن و امان کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ رینجرز اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم کی روک تھام میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں سندھ میں گورنر راج یا ایمرجنسی لگانے کی راہ تو ہموار ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے لیکن چونکہ صدرِ مملکت ایسا نہیں کریں گے لہٰذا حالات جوں کے توں رہیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں ڈاکو راج کو ختم کرنا اب صوبائی حکومت کے بس میں نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ معاملات انتہائی سنگین ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں بھی امن و امان کی صورتحال مثالی نہیں ہے۔ نگران حکومت نے جس حال میں صوبہ چھوڑا ہے‘ اب یہ کسی طور مثالی صوبہ کہلانے کا حقدار نہیں۔ بیورو کریسی‘ پولیس‘ انتظامیہ اور دیگر اداروں کی کارکردگی پر بے شمار سوالیہ نشان نظر آ رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور ان کا سیاسی تجربہ بیورو کریسی پر حاوی ہو سکتا ہے‘ بشرطیکہ وہ اپنی کابینہ کی ازسر نو تشکیل کریں اور وفادار گروپ کو کسی کارپوریشن میں کھپا کر کابینہ میں ایسے افراد کو شامل کیا جائے جو اپنی ذہانت سے صوبے کو آگے لے کر جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جب تک صوبے میں گڈ گورننس کے آثار نظر نہیں آتے‘ اس وقت تک وزیراعلیٰ اور کابینہ کے ارکان کو میڈیا سے دور رہنا چاہیے۔
اس وقت نظامِ عدل غیر یقینی صورتحال کی زد میں ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ‘ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز کو بھجوائے گئے خطوط کی تفتیش میں پیشرفت ہوئی ہے۔ سی ٹی ڈی کو خطوط سے ملنے والے پائوڈر کی فرانزک رپورٹ موصول ہو چکی ہے۔ اس مواد میں آرسینک کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے اور اس کی مقدار 15 فیصد تک پائی گئی۔ آرسینک ایک زہریلا مواد ہے اور اس کی 70 فیصد سے زائد مقدار جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ اس کو سونگھنے سے انسان کے اعصاب پر شدید اثر پڑتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں ایسے غیر معمولی واقعات سے ایک المیہ سامنے آ رہا ہے۔ 29 اپریل کو اب فل کورٹ اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے خط کے معاملے کی سماعت ہو گی۔ سپریم کورٹ کے بینچ میں سے بھی اب آواز اٹھائی جا رہی ہے کہ ملک میں سیاسی انجینئرنگ کا سلسلہ بہت طویل ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فل کورٹ بینچ لامحالہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر آمادہ ہو جائے گا اور ملک کے اہم اور پُراسرار واقعات‘ بیڈ گورننس‘ 8 فروری کے الیکشن میں ریٹرننگ افسران کے مشکوک کردار سمیت بہت کچھ اس کے روبرو آئے گا۔
ادھر 8 فروری کے الیکشن کے بعد الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے فارم 45 اور 47 کا موازنہ ہونا شروع ہو گیا ہے اور بعض غیر سرکاری تنظیموں کی جائزہ رپورٹس‘ یورپی یونین کے مبصرین اور امریکی کانگریس میں ڈونلڈ لُو کے انکشافات کے اثرات پر شدید زلزلے کے جھٹکے وفاقی حکومت اس لیے برداشت نہیں کر سکے گی کہ اس کے پاس اس کیس کا دفاع کرنے کیلئے مؤثر ٹیم موجود نہیں جو ان جارحانہ حملوں کا مقابلہ کر سکے۔ اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے اپنی ساکھ بچانے کیلئے ایسا فیصلہ آ سکتا ہے جس سے انتخابی نظام پر گہرا اثر پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی آئینی پٹیشن‘ جو آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے مطابق ہے‘ پر فیصلہ کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کے مؤقف کو تسلیم کر لیا تو پھر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسترد تصور کیا جائے گا اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین کا کوٹہ بحال ہو جائے گا۔ اس طرح مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو مل جائیں گی اور قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کی نشستیں کم ہو جانے پر سارا نظام متزلزل ہو سکتا ہے۔ اس طرح پنجاب میں بھی حکمران جماعت خطرے کی زد میں آ سکتی ہے۔
کچھ حلقوں میں اس وقت اگلے سیٹ اَپ کی تیاری ہو رہی ہے اور اس بار ایسا نگران سیٹ اَپ آئے گا جو 90 روز کے دائرہ کار سے باہر اور لامحدود اختیارات کا حامل ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنمائوں کے ہاں سرگوشیاں شروع ہو چکی ہیں کہ موجودہ سیٹ اَپ میں اختیارات کا سرچشمہ ان کی پہنچ سے بہت دور ہے‘ موجودہ حالات میں دو شخصیات ہی پوری کابینہ پر چھائی ہوئی ہیں اور ان کے اختیارات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ وزیراعظم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں نوازشریف‘ جو عمرہ کی ادائیگی اور لندن طبی معائنے کیلئے روانہ ہونے والے تھے‘ کا دورہ فی الحال مؤخر ہو گیا ہے اور نظر آ رہا ہے کہ عیدالفطر کے بعد اور 29 اپریل سے پہلے‘ کئی بڑی خبریں سامنے آ سکتی ہیں۔ ان حالات میں آئی ایم ایف بھی پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری نہیں دیکھ رہا جبکہ بجٹ کی بھی آمد آمد ہے اور مہنگائی نے پہلے ہی پاکستان کی تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ان حالات میں تحریک انصاف کے رہنمائوں سے بیک ڈور گفتگو بھی ہو رہی ہے جس کا نتیجہ 29 اپریل کے قریب سامنے آ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں